ترکی میں ایکو (ECO) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کا آغاز
اقتصادی تعاون تنظیم ایکو کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا چوبیسواں اجلاس، کل ترکی کے شہر انتالیہ میں ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کی شرکت سے شروع ہوا-
وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف ای سی او کے وزرائے خارجہ کے چوبیسویں اجلاس میں اسلامی جمہوریہ ایران کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایران پاکستان اور ترکی ای سی او کے بانی ہیں جبکہ جمہوریہ آذربائیجان، افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، کرغیزستان، قزاقستان اور ترکمانستان کو بھی تنظیم کی مستقل رکنیت حاصل ہے۔ ای سی او کے وزرائے خارجہ کے ایک روزہ اجلاس میں مشترکہ اقتصادی مسائل اور تنظیم کے علاقائی اقتصادی اہداف کے بارے میں تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو، وزراء کونسل کے چوبیسویں اجلاس میں اس کونسل کے عبوری سربراہ کی حیثیت سے منتخب ہوئے - انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ترکی،اس کونسل پر اپنے دورۂ صدارت میں ، رکن ملکوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کے لئے، تعلیمی، تجارتی، ٹکنالوجی، ثقافت اور سیاسی ڈائیلاگ کے شعبوں میں کوششیں انجام دے گا-
ایران کے وزیر خارجہ نے بھی انتالیہ اجلاس میں اپنی تقریر میں اس امر پر تاکید کرتے ہوئے کہ علاقے میں اقتصادی تعاون کے لئے ایکو کی گنجائشوں کے تعلق سے کچھ کام نہیں ہوا ہے، ایکو تنظیم کو درپیش مسلسل چیلنجوں کو، اقتصادی تعاون کے لئے مناسب آئیڈیل کا نہ ہونا قرار دیا- قبل ازیں انتالیہ پہنچے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے ایٹمی معاہدے پر علمدرآمد کی سطح میں کمی کے چوتھے مرحلے کو قانونی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے معاہدے کے فریقوں کو پہلے خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے ایران سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے تو تہران اگلے اقدام پر مجبور ہوجائے گا۔
اقتصادی تعاون تنظیم ایکو کی انفرادی خصوصیات کے پیش نظر اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ آنتالیہ میں ایکو کے وزرائے خارجہ کونسل کے چوبیسویں اجلاس میں ،اس اقتصادی تنظیم کے ممبر ممالک، ایکو کے اہداف کی جانب ایک اور تعمیری قدم اٹھائیں گے-
ایکو کے فیصلے کرنے اور اس کی پالیسیوں کا تعین کرنے میں کونسل آف منسٹرز (COUNCIL OF MINISTERS) کا بنیادی کردار ہوتا ہے- اس کونسل میں ممبرملکوں کے وزرائے خارجہ یا ایکو کے رکن ملکوں کی وزارت کے نمائندے شامل ہیں- یہ وزراء کونسل سالانہ اپنے اجلاس تشکیل دیتی ہے اور اس کے اجلاس کے انعقاد کی جگہ ممکن ہے رکن ملکوں میں سے کوئی ایک ملک قرار پائے-
اقتصادی تعاون تنظیم (ECO) ء 1985 عیسوی میں قائم کی گئی۔ یہ تنظیم ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی تھی،جس کا مقصد رکن ممالک کے مابین اقتصادی، تکنیکی اور ثقافتی تعاون کو فروغ دینا تھا۔ یہ تنظیم علاقائی تعاون برائے ترقی (آر سی ڈی) کا تسلسل ہے جو 1964ء سے 1979ء تک قائم رہی۔ سوویت یونین کا شیراوہ بکھرنے کے بعد ، 1992ء میں ایکو میں 7 نئے ارکان کا اضافہ کیا گیا جس میں افغانستان، آذربائیجان، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے رکن ممالک، علاقائی تعاون کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کے لیے کام کرتے ہیں-ایکو تنظیم میں نئے رکن ملکوں کی شمولیت کے ساتھ ہی اس کے رکن ملکوں کو نئے مواقع حاصل ہوئے ہیں- اس کے باوجود ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ایکو کے بانی ممالک اس تنظیم کے علاقائی مفادات کی راہ میں ان مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکے ہیں- اس وقت ایکو کی اقتصادی تنظیم کے دس رکن ممالک ہیں اور تین سو تیس ملین سے زائد افراد ان ملکوں میں زندگی گذارتے ہیں-
ایکو تنظیم کی تمام انفرادی خصوصیات کے باوجود، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقتصادی تنظیم کے کچھ رکن ملکوں نے ، بعض تسلط پسند اور مداخلت پسند حکومتوں کو موقع دے کر اس تنظیم کے بنیادی اصولوں سے دوری اختیار کرلی ہے اور عملی طور پر وہ ایکو کے بعض نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں- اس بنیادی کمزوری کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایکوکے رکن ممالک میں اس کا امکان پایا جاتا ہے کہ وہ دیگر حکومتوں سے وابستگی کے بغیر خود کو اور ایکو کے علاقے کو اچھی طرح سے چلا سکتے ہیں- خاص طور پر تجارت ، توانائی، نقل وحمل اور سیاحت کے شعبے میں فروغ، اس علاقائی تنظیم کی ترجیحات میں شامل ہے اور ایکو کے رکن ممالک ان چار شعبوں میں باہمی تعاون کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ضروری صلاحیتوں اور گنجائشوں سے بہرہ مند ہیں-