پاکستان کے وزیر خارجہ کا دورۂ ایران، علاقے کے حساس حالات میں سیاسی صلاح و مشورے
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے دورۂ تہران میں وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور ایران کے دیگر حکام سے ملاقات کریں گے- ان کے اس دورے کا مقصد علاقے کے مسائل کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنا ہے-
ایران اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے پانچ جنوری کو بھی ایک ٹیلیفونی گفتگو میں، علاقائی و بین الاقوامی تبدیلیوں پر تبادلۂ خیال کیا تھا- ایران اور پاکستان کے وزرائے خآرجہ کی ملاقات ایسے حالات میں انجام پا رہی ہے کہ علاقے میں امریکہ کی دہشت گردانہ مہم جوئی نے علاقے کی امن و سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے اور مغربی ایشیا کے حساس علاقے میں امریکی کاروائیوں اور مداخلتوں کے نتیجے میں امن وسلامتی کی صورتحال خطرناک مرحلے میں پہنچ گئی ہے-
امریکہ نے تین جنوری کو ایک دہشت گردانہ کاروائی میں، جنرل قاسم سلیمانی کو جو عراقی حکام کے سرکاری دعوت پر عراق کے دورے پر گئے تھے، بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک ہوائی حملے میں شہید کردیا اس حملے میں ان کے ہمراہ عراق کی عوامی رضاکار فورس الحشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابومہدی المہندس اور آٹھ دیگر افراد بھی شہید ہوگئے تھے- سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے امریکہ کی اس دہشت گردانہ کاروائی کےجواب میں آٹھ جنوری بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں دسیوں میزائل عراق کے صوبوں الانبار اور اربیل میں واقع امریکی فوجی اڈوں پر داغے، جس کے نتیجے میں دسیوں امریکی فوجی ہلاک و زخمی ہوگئے-ایران کبھی بھی علاقے میں جنگ اور بدامنی کا خواہاں نہیں رہا ہے- اسلامی جمہوریہ ایران نے عملی طور پر یہ ثابت کردیا ہے کہ علاقے میں سلامتی کے تحفظ اور مغرب کی دست پروردہ دہشت گردی سے مقابلے کے لئے اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے-
علاقےمیں امریکی اقدامات اور امریکی فوجیوں کی موجودگی کسی بھی عنوان سے قابل قبول نہیں ہے- اس وقت علاقے کے ممالک نے اس بات کو درک کرلیا ہے کہ علاقے پر بدامنی کے وسیع اثرات مرتب ہوئے ہیں اسی سبب سے علاقے کی امن و سلامتی کے تعلق سے ان ملکوں کو تشویش لاحق ہے- گذشتہ چند عشروں کے دوران مغربی ایشیا کے علاقے پر قابض ہونے کے لئے ، تسلط پسند طاقتوں کی مداخلتوں اور علاقے کی قوموں کی ان کے خلاف جدو جہد کا بازار گرم رہا ہے- امریکہ نے علاقے میں بہت زیادہ مداخلتیں انجام دی ہیں اور اسی سلسلے میں اس نے علاقے کے حصے بخرے کرنے جیسے اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے، اور دہشت گرد گروہوں منجملہ القاعدہ اور داعش کو جنم دینے اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے ذریعے کوشش کی ہے کہ علاقے کی سیاسی و سیکورٹی کی صورتحال کو تبدیل کردے اور اس پر اپنا تسلط اور بالادستی قائم کرے-ان اقدامات کا مشاہدہ افغانستان میں امریکہ کی اٹھارہ سالہ غاصبانہ موجودگی کے دوران کیا جا سکتا ہے کہ جس کے نتیجے میں دہشت گردی کو فروغ حاصل ہوا ، اور منشیات کی اسمگلنگ میں کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے-
عراق اور شام کی صورتحال بھی ایسی ہی رہی ہے- ان مسائل سے پتہ چلتا ہے کہ علاقے میں سیکورٹی کی صورتحال داخلی ہونے سے زیادہ علاقے میں امریکہ کی ان مداخلتوں کا نتیجہ ہے کہ جو علاقے میں اسرائیل کی غاصب حکومت کی برتری کے محور میں انجام پا رہی ہیں- مسئلہ یہ ہے کہ جب تک امریکہ علاقے میں موجود رہے گا علاقے کو کبھی بھی امن و سلامتی اور سکون دیکھنا نصیب نہیں ہوگا- امریکہ نے اپنی غیرعاقلانہ اور غیر منطقی پالیسیوں اور اقدامات، نیز بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے ذریعے، درحقیقت علاقے کو بدامنی سے دوچار کردیا ہے- اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اس موجودگی کا خاتمہ کیا جائے-
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وفد کے ساتھ 13 اکتوبر کو ہونے والی ملاقات میں، مغربی ایشیا کےعلاقے میں امن وسلامتی کے قیام کو بہت زیادہ اہم اور حساس امر قرار دیا اور حادثات کی روک تھام کے حوالے سے اجتماعی ذمہ داریوں پر تاکید فرمائی- آپ نے عراق و شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت میں خطے کے بعض ملکوں کے تخریبی کردار نیز یمن میں جنگ و خونریزی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہماری ان ملکوں کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے لیکن یہ ممالک امریکہ کی منشا کے تابع ہیں اور اسی کے کہنے پر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
تجربے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ علاقے میں سلامتی کے لئے سرحد پار کی طاقتوں کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں ہے وہ علاقے میں امن قائم نہیں کرسکتے بلکہ علاقے کے ملکوں کو چاہئے کہ اپنا طرز فکر تبدیل کرکے، باہمی تعاون کے ذریعے اجتماعی سلامتی کا تحفظ کریں- اس نقطۂ نظر سے، موجودہ حساس حالات میں پاکستان کے وزیر خارجہ کے دورۂ تہران میں ، علاقے کی سلامتی کے لئے باہمی تعاون اور ہم آہنگی اور مشترکہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے علاقے کی داخلی گنجائشوں سے استفادہ کا موضوع اہمیت کا حامل ہے-