سی آئی اے کی سربراہ کا دورۂ رام اللہ؛ فلسطینیوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سنچری ڈیل منصوبے کے اعلان کے بعد ، امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی سربراہ نے، فلسطینیوں کو خوفزدہ کرنے کے مقصد سے رام اللہ کا دورہ کیا ہے-
اسرائیلی میڈیا نے ہفتے کے روز خبر دی ہے کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی سربراہ جینا ہاسپل نے سنچری ڈیل منصوبے کے اعلان کے ایک دن بعد فلسطینی اتھارٹی کے مرکز شہر رام اللہ کا دورہ کرکے فلسطینی حکام کو امریکہ کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کی ترغیب دلانے اور ان سے اس تعلق سے یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے- ہاسپل نے فلسطینی اتھارٹی کے انٹلی جینس سربراہ "ماجد فرج" اور داخلی امور کے وزیر "حسین الشیخ " کے ساتھ ملاقات کی ہے- اسرائیلی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ سی آئی اے کی سربراہ کو فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ واشنگٹن اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین تعلقات جاری رہیں گے اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا-
اسرائیلی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ ہاسپل نے محمود عباس کو یہ اطمئنان دلایا ہے کہ واشنگٹن اسرائیل کو اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کنسٹ کے انتخابات سے پہلے غرب اردن اور وادی اردن کی کالونیوں کو اسرائیل میں ضم کرے- وادی اردن اور غرب اردن کی یہودی کالونیوں کو فوری طور پر ملحق کرنے کے صیہونی وزیر اعظم کے فیصلے کی امریکہ کی جانب سے مخالفت کے بعد، نتنیاہو نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ دنوں میں علامتی طور پر ایک چھوٹا سا الحاق انجام دیں گے تاکہ اپنے ووٹروں کی خوشنودی کا سامان فراہم کرسکیں-
امریکہ کی خارجہ پالیسی کے کسی سینئر عہدیدار کے بجائے، سی آئی اے کی سربراہ کے دورۂ غرب اردن سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سنچری ڈیل منصوبے کے خلاف فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے شدید ردعمل اور ٹرمپ کے ٹیلیفون کا جواب نہ دینے اور امریکہ کے ساتھ رابطہ منقطع کرنے کے باعث، واشنگٹن ، فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سربراہ کے خلاف دھمکی آمیز رویہ اختیار کر رہا ہے- خاص طور پر ایسے میں کہ ٹرمپ نے سنچری ڈیل کی جو رونمائی کی ہے اس پر نہ صرف یہ کہ کسی بھی فلسطینی دھڑے یا تنظیم نے مثبت ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے بلکہ فسطینی اتھارٹی اور تمام فلسطینی گروہوں نے اسے سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے-
باوجودیکہ محمود عباس نے صیہونی حکومت کے تعلق سے بہت زیادہ سازباز کا عمل انجام دیا ہے لیکن انہوں نے بھی اس منصوبے کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور اس منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اس معاہدے کو ’تاریخ کا کوڑا دان‘ قرار دیا ہے- محمود عباس نے اسی طرح صیہونی وزیر اعظم کے نام ایک خط میں اس پر اوسلو معاہدے میں تبدیلی لانےکا الزام عائد کیا اور کہا کہ فلسطینی فریق کا اب اس معاہدے سے کوئی واسطہ نہیں ہے-
فلسطینی صدر محمود عباس نے عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اسرائیل اور امریکا کے ساتھ سکیورٹی تعاون ختم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ محمود عباس نے دوٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ میں اس حل کو کبھی قبول نہیں کروں گا۔ میں اپنی تاریخ میں نہیں لکھوں گا کہ میں نے یروشلیم (بیت المقدس) کو فروخت کردیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی قوم ، اسرائیلی قبضے کے خاتمے اور مشرقی القدس دارالحکومت کے ساتھ اپنی ریاست کے قیام کے لیے بدستور پُرعزم ہے۔ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں امریکا کو کبھی واحد ثالث کار کے طور پر تسلیم نہیں کریں گے۔
سنچری ڈیل منصوبے کی فلسطینی رہنماؤں کی جانب سے شدید مخالفت کے پیش نظر امریکہ اب ان کو دھمکی دینے پر اتر آیا ہے چنانچہ امریکی صدر کے داماد اور مشیر جرڈ کوشنر نے فلسطینی اتھارٹی کے موجودہ سربراہوں خاص طور پر محمود عباس کی توہین کرتے ہوئے ان کو فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کے عہدے سے برطرف کرنے کی دھمکی دی ہے اور سنچری ڈیل منصوبے کو آخری موقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فلسطینی قیادت اس منصوبے کی موافقت کرنے کی جرات نہیں رکھتی تو ممکن ہے کہ جو آئندہ کا فلسطینی قائد ہوگا وہ اس پر رضامندی ظاہر کردے- اس کے جواب میں محمود عباس نے کہا کہ کوئی بھی سنچری ڈیل کو تسلیم کرنے کی ذلت قبول نہیں کرے گا-
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ناجائر صہیونی ریاست کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس میں مشرق وسطٰی میں نام نہاد قیام امن کے لیے سینچری ڈیل کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ وائٹ ہاوس میں منعقدہ اس تقریب میں فلسطین کے کسی نمائندے کو مدعو ہی نہیں کیا گیا جب کہ تقریب میں عمان، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے سفیروں نے شرکت کی۔ امریکی صدر نے کہا کہ یہ منصوبہ اسرائیل کو کافی کچھ دیتا ہے جو اس نے کئی دہائیوں سے جاری بین الاقوامی سفارتکاری میں طلب کیا ہے، جس میں یروشلم (بیت المقدس) کو فلسطینیوں کے ساتھ بانٹنے کے بجائے اس کا ’غیر منقسم‘ دارالحکومت کی حیثیت سے کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اس منصوبے میں امریکا نے اسرائیل کو اسٹریٹجک اہمیت کی حامل وادی اردن کو ضم کرنے کی بھی منظوری دی جو مغربی کنارے کا 30 فیصد علاقہ ہے جبکہ دیگر یہودی بستیوں کے الحاق کی اجازت بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ وہ ، اسرائیل - فلسطین امن کے لیے 1967 سے پہلے کی حد بندی کی حمایت کرتا ہے-