9 ذی الحج روز شہادت سفیر امام حسین علیہ السلام
۹ ذی الحجہ سنہ ۶۰ ہجری کو دیباچۂ کربلا، حسینیت و صداقت کے ایلچی حضرت مسلم بن عقیل کا یوم شہادت ہے، اس مناسبت پر تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہوئے پیش خدمت ہے ایک ویڈیو جو آپکی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتی ہے۔
مسلم بن عقیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے چچا زادہ بھائی، مردحق، جری اور اسلام میں امام کے حقیقی آشنا تھے۔ آپ اسلامی فتوحات اور جنگ صفین وغیرہ میں شریک رہ چکے تھے اور جب امام حسین علیہ السلام نے بیعت یزید کو ٹھکرا کر مدینہ کو خدا حافظ کہا تو آپ بھی امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ مکہ تک تشریف لائے، مکہ میں امام حسین علیہ السلام کو اہل کوفہ کے خطوط موصول ہوئے کہ ہمارا کوئی امام نہیں ہے آپ تشریف لائیے ہوسکتا ہے آپ ہماری ہدایت کا سبب بنیں۔امام حسین علیہ السلام کوفہ کی تہذیب اور وہاں کے لوگوں کی بدلتی ہوئی طبیعت اور مفاد پرستی کو بخوبی جانتے تھے، کیونکہ اسی کوفہ میں آپ کے پدر بزرگوار حضرت علی علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا۔ ایسے شہر کے لئے کسی مخلص اورتجربہ کار شخص کی ضرورت تھی کہ جو لحظہ بہ لحظہ رنگ بدلنے والے افراد سے شکست نہ کھا سکے اور اپنے مقصد کے حصول سے ہنگامی حالات میں بھی غافل نہ رہے۔ امام حسین علیہ السلام نے اپنے مختصر قافلہ پر نظر ڈالی اور مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ منتخب فرمایا۔
جناب مسلم نے اس موقع پر یہ نہیں کہا کہ مولا بنی امیہ سے ہماری خاندانی دشمنی چلی آرہی ہے کوفہ کی حکومت ان کے ہاتھ میں ہے میں تن تنہا جاؤں گا تو اس کا جو نتیجہ ہوگا وہ سامنے ہے میں اکیلا حکومت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس کے برعکس حضرت مسلم خاموش مولا کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کئے فرمان امام سن رہے ہیں امام علیہ السلام نے کامیابی کی دعا دی اور مسلم مکہ سے کوفہ کے لئے روانہ ہو گئے۔
امام کا خط اہل کوفہ کے نام:
مسلم کی روانگی سے قبل امام نے سعید اور ہانی بن عروہ کے ہاتھ ایک خط اہل کوفہ کے نام اس مضمون کا ارسال کیا یہ لوگ یعنی سعید و ہانی بن عروہ تمہارے خطوط لے کر پہنچے تمہاری تحریر کو میں نے غور سے پڑھا تمہاری بات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ تمہارا کوئی امام نہیں ہے لہذا تم مجھے بلا رہے ہو ، میں اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو بھیج رہا ہوں یہ میرے معتمد ہیں اور میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ وہ مجھے تمہارے حالات کی اطلاع دیںگے اگر انہوں نے اطلاع دی کہ کوفہ کے سر برآوردہ افراد اس بات پر متفق ہیں تو میں آجاؤں گا۔ واضح رہے امام کتاب خدا پرکامل عدالت کا پابند حق اور مرضی معبود کاہمہ وقت خواستگار ہوتا ہے۔ والسلام حسین بن علی بن ابی طالب۔
جناب مسلم مکہ سے مدینہ تشریف لائے اور روضہ رسول میں نماز ادا کرکے صبح ہوتے ہی کوفہ کی سمت سفر کا آغاز کردیا۔ راستے کی مشکلات برداشت کرتے ہوئے مدینہ سے کوفہ پہنچے اور مختار بن عبید ثقفی کے گھر قیام پذیر ہوئے۔ جناب مسلم کی آمد کی خبر سن کر اہل کوفہ مختار کے گھر میں جمع ہوئے آپ نے امام حسین علیہ السلام کا خط پڑھ کرسنایا تو لوگ جوش محبت و عقیدت سے رونے لگے۔ اور بعض با اثر عقیدت مندوں نے کھڑے ہوکر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اپنی نصرت کا یقین دلایا اسکے بعد لوگ آپ کے ہاتھوں پر امام حسین (ع)کی بیعت کرنے لگے۔ اگرچہ جناب مسلم نے ان لوگوں سے بیعت کا مطالبہ نہیں کیا تھا لیکن جب وہ بہ رضا و رغبت بیعت کرنے لگے تو آپ نے ان سے اس طرح بیعت لی جس طرح رسول نے قبیلہ خزرج وغیرہ سے بیعت لی تھی بیعت کے الفاظ یہ تھے ؛کتاب خدا وسنت رسول کی طرف دعوت، ظالموں اور سرکشوں سے جہاد، مستضعفین سے دفاع، محروموں کے حقوق کی بازیابی، غنائم کی صحیح تقسیم اور اہل بیت کی نصرت۔ بیعت کرنے والوں کی تعداد میں اختلاف ہے اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ بیعت ایک ہی روز نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کا سلسلہ کم وبیش ایک ماہ جاری رہا تھا ۔اسی لئے بیعت کرنے والوں کی تعداد معین نہیں کی جا سکتی۔
لیکن جب ابن زیاد ملعون کوفہ کا گورنر بن کر آیا تو اس نے اہل کوفہ سے کہا: شام سے بہت جلد لشکر آنے والا ہے، جو تم کو تباہ وبرباد کردے گا نیز تمہاری جان اور آبرو بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔ چنانچہ وہ افرادجنہوں نے ابن زیاد کا کلام سنا تھا، وہاں سے نکل کرمہاجرین کے اہل خانہ کے پاس پہنچے اور ان کی ماں بہنوں اور بیویوں کو ورغلایا کہ تمہارے وارثوں کو شام کا لشکر آکر تہہ تیغ کردیگا اور لشکر آنے ہی والا ہے عورتوں کا دل اپنے وارثوں، بھائیوں بھتیجوں کے قتل سے لرزنے لگا اور بے تحاشا گھروں سے نکل پڑیں اور اپنے اپنے عزیزوں کے دامن پکڑ کر فریادیں کرنے لگیں جن سے مہاجرین کے دل بھی کانپنے لگے کچھ تو انہیں عورتوں کے ساتھ چلے گئے اور کچھ موقع دیکھ کر فرار ہوگئے اور جناب مسلم وہاں پہنچے تو بہت مختصر افراد کو موجود پایا شام ہوتے ہی آپ کے پاس صرف ٣٠ افراد بچے تھے اسی کم تعداد کے ساتھ آپ نے نماز مغربین ادا کی نماز کے بعد ان میں سے بھی دس فرار ہوچکے تھے۔ جناب مسلم مسجد سے باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ آپ کے ساتھ دس ہی افراد رہ گئے ہیں انہیں لوگوں کے ہمراہ آپ باب کندہ کی طرف روانہ ہوئے مسلم محلہ کندہ میں جس وقت پہنچے تو اپنے کو تنہا پایا اب آپ کے ہمراہ کوئی راستہ بتانے والا بھی نہ تھا اور ابن زیاد کی دھمکی آمیز تقریر سے کوفہ میں سناٹا چھایا ہوا تھا ہر ایک کے مکان کا دروازہ بند نظر آتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
حضرت مسلم ابن عقیل (ع) امام حسین (س) کے سفیر اور مکتب کربلا کے پہلے شھید ہیں۔ جنہیں کوفہ کی سرزمین میں یزیدیوں نے انتہائی ظلم وستم سے شھید کیا۔ آپ انتہائی شجاع، عابد اور اپنے زمانے کے امام کے وفادار تھے اور اپنی شہادت کے ذریعے شجر اسلام کی آبیاری کی۔ آپ کی زندگی پر فلمائے گئے کچھ لمحات اس ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے۔