سید الکریم حضرت عبد العظیم (ع)
سید الکریم حضرت عبد العظیم علیہ السلام کی وفات ۱۵ شوال سنہ ۲۵۲ ہجری میں امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں ہوئی۔
جناب عبد العظیم حسنی علیہ السلام حسنی سادات سے ایک معروف عالم دین اور عظیم محدث ہیں۔آپ کا سلسلۂ نسب چار واسطوں سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام تک پہونچتا ہے۔شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے ذریعہ نقل ہونے والی احادیث معصومین علیہم السلام کو ’’جامع اخبار عبد العظیم‘‘ نامی ایک کتاب میں جمع کیا ہے۔
بعض روایات کے مطابق آپ کی ولادت سنہ ۱۷۳ ہجری میں شہر مدینہ میں ہوئی۔ وہ دور ہارون عباسی کا دور تھا۔
آپ سید الکریم اور شاہ عبد العظیم کے نام سے معروف ہیں۔بعض تواریخ یہ بتاتی ہیں کہ آپ نے امام علی رضا، امام محمد تقی اور علی نقی علیہم السلام کے دور کو درک کیا ہے۔آپ کی ایمانی عظمت کا یہ حال تھا کہ جس وقت آپ نے اپنے ایمان اور عقائد کو امام علی نقی علیہ السلام کے سامنے پیش کیا تو امام نے انکی تائید کرتے ہوئے آپ کو ’’حقیقی دوستدار اہلبیت‘‘ ہونے کا لقب دیا اور فرمایا’’انت ولینا حقاً‘‘
بعض روایات میں آپ کی زیارت کے ثواب کو سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے مساوی بتایا گیا ہے۔
تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ جس وقت جناب عبد العظیم امام محمد تقی اور امام علی نقی علیہم السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوتے تھے تو نہایت درجہ انکساری، حیا اور تواضع کے ساتھ اس انداز میں وارد ہوتے تھے کہ آپ کے ہاتھ ردا (عبا) سے باہر ہوتے،سلام کرتے اور ائمہ علیہم السلام بھی جواب سلام کے بعد انہیں اپنے قریب بلاتے اور پاس میں بٹھاتے تھے۔
بنی عباس کے دور میں شیعوں کے خلاف پائے جانے والے شدید حکومتی دباؤ اور ہونے والی ایذا رسانیوں کے سبب شاہ عبد العظیم علیہ السلام نے شہر رے کا رخ کیا اور پھر آپ نے اپنی باقی زندگی اسی شہر میں گزاری۔ چونکہ حکومتی کارندے آپ کی جستجو میں رہتے تھے، اس لئے آپ شہر رے آنے قبل مدینے اور سامرا میں تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔
آپ کی وفات ۱۵ شوال سنہ ۲۵۲ ہجری میں امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں ہوئی۔
مفسر قرآن اور کتاب مجمع البحرین کے مصنف فخر الدین طریحی کا خیال ہے کہ شاہ عبد العظیم حسنی کو زندہ زندہ قبر کے حوالے کر کے شہید کر دیا گیا تھا۔البتہ بعض دیگر مؤرخین کا ماننا ہے کہ آپ کی شہادت کے تعلق سے کوئی موثق اور معتبر روایت موجود نہیں ہے۔ مگر یہ طے ہے آپ کو عباسی خلفا کی جانب سے جان کا خوف لاحق تھا، جس کے پیش نظر آپ نے سامرا سے شہر رے کا رخ کیا اور وہاں مخفی طور پر زندگی گزاری ہے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے جناب عبد العظیم علیہ السلام کے ذریعے ایک اہم پیغام اپنے چاہنے والوں تک پہونچایا ہے۔
امام علیہ السلام ’’سید الکریم‘‘ کو کچھ اس انداز میں خطاب فرماتے ہیں:
بسم الله الرحمن الرحیم
اے عبد العظیم،میرا سلام میرے شیعوں تک پہونچا دینا اور ان سے کہنا کہ اپنے دلوں پر شیطان کو مسلط نہ ہونے دیں۔ان کو صداقت، امانتداری اور بامعنیٰ خاموشی کے ساتھ ساتھ آپسی اختلاف، لڑائی جھکڑے اور بےیہودہ بحثوں سے پرہیز کرنے کی ہدایت دو۔
ان سے کہو کہ رشتہ داروں سے ملتے جلتے رہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلقات بنائے رکھیں۔اس لئے کہ یہ امور خدا، اولیائے الٰہی اور مجھ سے انکی قربت کا باعث ہیں۔
ہمارے چاہنے والوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ آپسی اختلافات اور دشمنیوں پر صرف کریں۔میں نے اپنی ذات سے یہ عہد کیا ہے کہ جو بھی ان امور کا مرتکب ہوا یا میرے کسی چاہنے والے کو اس نے تکلیف پہونچائی تو میں خدا سے یہ درخواست کروں کہ اسے دنیا میں سخت ترین عذاب میں مبتلا فرمائے اور ایسے افراد آخرت میں بھی نقصان اٹھانے والوں میں ہوں گے...