ایودھیا میں بابری مسجد کی زمین رام للا کو دی گئی
ہندوستان کی سپریم کورٹ نے پانچ سو سال سے زائد پرانے ایودھیا رام جنم بھومی تنازعہ کا آج فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ اراضی شری رام جنم بھومی نیاس کو سونپنے اور سنی وقف بورڈ کو مسجد کی تعمیر کے لئے ایودھیا میں ہی مناسب مقام پر پانچ ایکڑ اراضی دینے کا حکم دیا ہے۔
ہندوستان کی سپریم کورٹ کےچیف جسٹس رنجن گوگوئی کی زیر صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے یہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ متنازعہ اراضی شری رام جنم بھومی نیاس کو دی جائے گی اور سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں ہی پانچ ایکڑ اراضی دستیاب کرائے جائے گی۔
ایودھیا معاملے میں نرموہی اکھاڑے کی عرضی خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ رام للا وراجمان قانونی طور پر منظور شدہ ہے۔ سنی وقف بورڈ کا دعویٰ غور کرنے کے لائق ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ ایس ایس آئی کی رپورٹ کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔ کھدائی میں ملا ڈھانچہ غیر اسلامی تھا۔ حالانکہ ایس ایس آئی نے یہ نہیں کہا کہ مسجد۔مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ دونوں فریقوں کی دلیلیں کوئی نتیجہ نہیں دیتیں۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ زمین کی ملکیت کا فیصلہ عقیدے پر نہیں کیا جاسکتا۔ ہندو اس کو ہی رام کی پیدائش کی جگہ مانتے ہیں جبکہ مسلم اس جگہ نماز اداکرتے تھے۔ ہندو فریق جس جگہ کو سیتا رسوئی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مسلم فریق اس جگہ کو مسجد اور قبرستان بتاتا ہے۔ سی جے آئی نے کہا اندرونی حصے میں ہمیشہ پوجا ہوتی تھی۔ باہری چبوترہ رام چبوترہ اور سیتا رسوئی میں بھی پوجا ہوتی تھی۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے پیش نظرآج اترپردیش، بہار،مدھیہ پردیش، کرناٹک اور تملناڈو سمیت مختلف ریاستوں میں سکیورٹی سخت کر دی گئی جبکہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اس فیصلے کو فتح و شکست سے جوڑکر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔