دہلی ہائی کورٹ نے پولیس اور نفرت پھیلانے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا
ہندوستانی سپریم کورٹ نے شاہین باغ دھرنے کے خلاف اپیلوں پر سماعت تیئس مارچ تک کے لئے ملتودی کردی ہے۔ دوسری جانب دہلی ہائی کورٹ نے نفرت پھیلانے والا بیان دینے والے رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کئے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔
ہندوستانی میڈیا ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دہلی کے شاہین باغ علاقے سے مظاہرین کو ہٹائے جانے سے متعلق عرضیوں پر بدھ کو کوئی ہدایت جاری کرنے سے انکار کردیا۔
ہندوستانی عدالت عظمی نے اسی کے ساتھ سماعت تئیس مارچ تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ فی الحال شاہین باغ دھرنے کے خلاف عرضیوں کی سماعت کے لئے ماحول سازگار نہیں ہے ۔
سپریم کورٹ نے اسی کے ساتھ دہلی میں جاری تشدد اور فسادات کے معاملے کی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) سے جانچ کرانے سے متعلق بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر کی عرضی بھی مسترد کر دی۔
جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بینچ نے کہا ہے کہ اس معاملے پر دہلی ہائی کورٹ سماعت کر رہا ہے اس لئے اس معاملے میں سپریم کورٹ مداخلت نہیں کرے گی۔
دریں اثنا عدالت عظمیٰ نے اشتعال انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے تعلق سے دہلی پولیس کی سرزنش کی ہے۔ جسٹس جوزف نے کہا کہ دہلی پولیس ایسے لوگوں کے خلاف قانون کے دائرے میں کارروائی کیوں نہیں کرتی۔ عدالت نے کہا کہ پولیس کو پرکاش سنگھ معاملے میں جاری کئے گئے رہنما اصولوں کے مطابق کارروائی کرنے سے کس نے روکا ہے۔
ادھر دہلی ہائی کورٹ نے دہلی پولیس پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے کہ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں کرائی گئی ۔
رپورٹوں کے مطابق بدھ کو دہلی کورٹ میں بی جے پی لیڈر کپل مشرا کی وہ تقریر دکھائی گئی جس میں انھوں نے ایک پولیس افسر کی موجودگی میں نفرت پھیلانے والا بیان دیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ اگر پولیس نے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جاری دھرنے ختم نہ کرائے تو وہ خود ان دھرنوں کو ختم کریں گے ۔
دہلی ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کمشنر پر سخت اعتراض کیا ہے کہ جب فسادات ، اسلحے کے استعمال اور اموات پر ایف آئی آر لکھوائی گئی ہے تو نفرت پھیلانے والا بیان دینے والوں کے خلاف ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی گئی ۔