مغربی ایشیا کے ملکوں کے درمیان براہ راست بات چیت اور مذاکرات کی ضرورت پر زور
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے مغربی ایشیا کے ملکوں کے درمیان براہ راست بات چیت اور مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
روزنامہ العربی میں لکھے گئے اپنے مقالے میں وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا تھا کہ موجودہ حقائق کو صحیح طور پر سمجھنا، خطے کی مطلوبہ صورت حال کے بارے میں مشترکہ سوچ کا حصول اور مطلوبہ صورت حال تک رسائی کی راہوں کی تلاش، ایران اور خطے کے تمام اسٹیک ہولڈروں کے لیے تین اہم چیلنج ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ براہ راست مذاکرات ہی مغربی ایشیا کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کا واحد راستہ ہے اور اس کے نتیجے میں خطے کے تمام ملکوں کی سلامتی اور خوش حالی کی امید کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر محمد جواد نے اپنے مقالے میں واضح کیا ہے کہ اگرچہ خطے کے ملکوں نے عراق میں ایک جعلی (داعشی) اسلامی حکومت کے چیلنج کو سر کر لیا ہے لیکن سلامتی کی مطلوبہ صورت حال تک پہنچنے کے لیے ابھی طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ کے مطابق دہشت گردی اور انتہا پسندی اب بھی موجود ہے اور خطے کے مختلف ملکوں میں پھیلا ہوا دہشت گردی کا نیٹ ورک، اس خطے اور دنیا کی سلامتی کے لئے بدستور خطرہ شمار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے اپنے مقالے میں طاقتور خطے کے قیام کے بارے میں تہران کے نظریئے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ نظریہ اجتماعی، سلامتی، باہمی احترام کی ضرورت اور سب کی جیت کے اصول کو قبول کر لینے پر استوار ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ طاقتور خطے کا نظریہ کسی ایک ملک کی بالادستی کے قیام اور دوسروں کو دیوار سے لگانے کی نفی کرتا ہے، واضح کیا ہے کہ اس نظریئے کی بنیاد پر خطے کے ہر ملک کے مفادات کا تحفظ، تمام ملکوں کے مفادات کا تحفظ ہے اگرچہ اقتصادی اور سماجی ترقی کے میدان میں ان کے درمیان رقابت نامطلوب نہیں ہے کیونکہ رقیبوں کو میدان سے باہر کرنے والی بالادستی اور برتری کا قیام نا ممکن ہی نہیں بلکہ کشیدگی کا سبب بھی ہے اور اصولی طور پر ایسا نہیں ہو سکتا۔
ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے کھل کر لکھا ہے کہ ایسے حالات میں جب خطے کو لاتعداد مشکلات کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی، ماحولیاتی آلودگی، غیر قانونی مہاجرت اور دوسرے مسائل شامل ہیں، اسلحے کی تباہ کن دوڑ اور ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی کا واضح مطلب یہ ہے کہ علاقے کی قوموں کو اخراجات کا مزید بھاری بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔