Apr ۲۴, ۲۰۱۸ ۱۷:۰۲ Asia/Tehran
  • ایٹمی معاہدہ عالمی توجہ کا مرکز

آج کل ایٹمی معاہدہ علاقائی و عالمی سطح پر مکمل توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

فرانسیسی صدر امانوئل میکرون منگل کو اور جرمن چانسلر آئندہ جمعےکو امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کر رہی ہیں۔ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے نیویارک میں این پی آر ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ امید ہے کہ فرانس کے صدر امانوئل میکرون اور اس کے بعد جرمن چانسلر انجیلا مرکل اپنے دورہ امریکہ کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ ایٹمی معاہدہ اپنی موجودہ شکل میں ہی خود امریکہ اور عالمی برادری کے مفاد میں ہے۔ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ امریکہ پوری دنیا کو اس بات کا پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ مذاکرات کے بعد بھی جو معاہدہ طے پائے گا امریکہ اس سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے اسی طرح اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا ہے کہ فرانسیسی صدر کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ ایٹمی معاہدے کا کوئی متبادل نہیں ہے اور یہی معاہدہ سب کچھ ہے ورنہ کچھ نہیں۔انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ یورپی رہنماؤں کو چاہئے کہ امریکی صدر ٹرمپ کو اس بات کی ترغیب دلائیں کہ نہ صرف یہ کہ امریکہ ایٹمی معاہدے میں باقی رہے بلکہ اس معاہدے سے متعلق اپنے تمام وعدوں پر عمل بھی کرے۔دوسری جانب ایران کی پارلیمنٹ کے قومی سلامتی و خارجہ پالیسی کمیشن کے ترجمان سید حسین نقوی حسینی نے کہا ہے کہ گذشتہ دو برسوں کے دوران حکومت امریکہ کے اقدامات اور اس ملک کی خارجہ پالیسی میں حالیہ تبدیلیوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ایٹمی معاہدے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ امریکہ یورپی ملکوں سے اس بات سے اتفاق کر لے کہ وہ ایٹمی معاہدے میں باقی رہے گا مگر وہ اس معاہدے پر عمل نہ کرے اور یا پھر ایٹمی معاہدے سے ہی نکل جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے ممکنہ صورت حال کے بارے میں منصوبہ بندی کر لی ہے۔امریکی صدر ٹرمپ کے پاس بارہ مئی تک کا وقت ہے کہ وہ ایران کے خلاف پابندیاں معطل رکھنے کے بارے میں کوئی فیصلہ کر لیں۔واضح رہے کہ امریکی صدر ایٹمی معاہدے میں اصلاحات کا مطالبہ کررہے ہیں  اور انھوں نے دھمکی بھی دی ہے کہ اس معاہدے میں اگر تبدیلی نہیں کی گئی تو امریکہ اس سے نکل جائے گا۔

ٹیگس