سوچی سمجھوتہ تہران اجلاس کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ، ایران
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب غلام علی خوشرو نے ایران کے خلاف امریکی الزامات کو شام میں امریکہ کی جانب سے اپنی شکست پر پردہ ڈالے جانے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوچی معاہدہ تہران اجلاس کی سفارتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب غلام علی خوشرو نے مشرق وسطی اور شام کے موضوع پر سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوچی معاہدہ ایران، ترکی اور روس کے مابین سات ستمبر کو تہران اجلاس کی سفارتی کوشششوں کا نتیجہ ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ سوچی معاہدہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے اصولوں پر مبنی ہے تا کہ شام میں عام شہریوں کے جانی نقصان کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ سوچی معاہدہ شام میں شامی حکومت کی حاکمیت کے لئے ہے تا کہ دوسرے ممالک کی طرح شام کی حکومت بھی اپنا اقتدار قائم رکھ سکے۔
اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب واسیلی نبنزیا نے بھی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ آستانہ مذاکرات کے دائرے میں شریک ملکوں یعنی ایران اور ترکی کے ساتھ ساتھ ان کا ملک مذاکرات کے ذریعے شام کے صوبے ادلب میں مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے صلاح و مشورے کا عمل جاری رکھنا چاہتا ہے۔
انھوں نے اسی طرح سلامتی کونسل کے رکن ممالک کو شام کے صوبے ادلب میں کشیدگی کم کرنے اور وہاں غیر فوجی علاقہ قائم کرنے کے بارے میں پیدا ہونے والی مفاہمت کی تفصیلات سے باخبر کیا اور تاکید کے ساتھ کہا کہ اس طرح کی مفاہمت اور سمجھوتوں سے علاقے میں جنگ و خونریزی کی روک تھام اور فائر بندی کے نفاذ پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے۔
اقوام متحدہ میں روس کے مستقل مندوب نے یہ بھی تاکید کے ساتھ کہا کہ شام میں کسی بھی طرح کی دہشت گردی کے خلافمہم کو بھرپور طریقے سے جاری رکھا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے سات ستمبر کو ادلب کے بارے مین تہران میں تشکیل پانے والے سہ فریقی سربراہی اجلاس میں شرکت کی تھی۔
جبکہ ترکی کے صدر رجب اردوغان پیر کو دو طرفہ تعلقات اور علاقے کے اہم مسائل خاص طور سے شام کے بارے میں روس صدر ولادیمیر پوتن سے گفتگو اور تبادلہ خیال کے لئے مغربی روس کے شہر سوچی روانہ ہوئے۔ترکی کے صدر رجب اردوغان کے ساتھ ملاقات کے بعد روس صدر ولادیمیر پوتن نے شام کے علاقے ادلب میں پندرہ اکتوبر کو دہشت گردوں اور شامی فوج کے درمیان پندرہ سے بیس کلو میٹر کا غیر فوجی علاقے کا قیام عمل میں لانے کی خبر دی۔
ترکی کی سرحد قریب واقع شام کا شمال مغربی صوبہ ادلب دہشت گردوں کا آخری گڑھ سمجھا جاتا ہے اور تاحال اس علاقے میں موجود دہشت گردوں نے دمشق حکومت سے مصالحت پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے۔شامی فوج نے اس علاقے کو دہشت گردوں سے مکمل آزاد کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔
جبکہ مغربی حکومتیں خاص طور سے امریکہ کی ٹرمپ حکومت ادلب میں شام کی حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا ڈرامہ رچار کو اس علاقے میں دہشت گردوں کو بچانے اور شام کی فوجی کارروائی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔