ایران نے امریکا سے مذاکرات کی پیشکش کو ایک بار پھر مسترد کردیا
ایران نے مذاکرات کی پیشکش کو زیادہ سے زیادہ دباؤ کی امریکی پالیسی کا حصہ قرار دیا ہے۔
ایک غیر ملکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی کا کہنا تھا کہ مذاکرات کی امریکی پیشکش ایک چال ہے جس کا مقصد تہران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کو مکمل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی، ایران کے خلاف پابندیوں کا از سر نو آغاز، اقوام متحدہ کی قرار داد بائیس اکتیس کی خلاف وزری اور امریکہ کے دوسرے تباہ کن اقدامات کو سامنے رکھتے ہوئے ایران نے مذاکرات کی امریکی پیشکش کو مسترد کردیا ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ سید عباس موسوی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایران شروع ہی سے یورپی ملکوں کو ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور یورپ کی جانب سے معاہدے کو بچانے کے لیے لازمی اقدامات انجام نہ دینے کی صورت میں، ایٹمی معاہدے کے خاتمے سے پیدا ہونے والے منفی عالمی اثرات کی بابت خبردار کرتا رہا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے واضح کیا کہ ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی سطح میں کمی کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ سید عباس موسوی نے مغربی ایشیا کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی نے محاذ آرائی کے خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔ انہوں نے ہمسایہ عرب ملکوں کے ساتھ عدم جارحیت کے معاہدے کی ایرانی پیشکش کو دوہراتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیا کے ملکوں کو اس علاقے کی سلامتی کا خود تحفظ کرنا ہوگا۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بار پھر اس موقف کا اعادہ کیا کہ تہران ہرگز جنگ میں پہل نہیں کرے گا لیکن اپنی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کا پوری قوت کے ساتھ دفاع کرتے ہوئے امریکہ کے ہر اقدام کا ترکی بہ ترکی جواب دے گا۔