ایران کے بارے میں ٹرمپ کا خواب اور پومپئو کا اعتراف
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جہاں ایک پھر ایران کے خلاف من گھڑت دعوؤں کا اعادہ کیا ہے وہیں انکے وزیر خارجہ نے ایران کے مقابلے میں امریکہ کی تنہائی کا اعتراف بھی کیا ہے۔
فوکس نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ تین نومبر کے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں صرف تین ہفتے کے اندر اندر ایران سے سمجھوتہ طے پا جائے گا۔ اس سے پہلے انہوں نے دعوی کیا تھا کہ آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیابی کے ایک ماہ یا چار ہفتے بعد ایران سے سمھجوتہ ہو جائے گا اور اب وہ تین ہفتے کی بات کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے ڈیموکریٹ رقیب جو بائیڈن کے موقف پر نکتہ چینی کرتے ہوئے دعوی کیا کہ چین اور ایران، انتخابات میں میری ناکامی اور بائیڈن کی کامیابی چاہتے ہیں۔امریکی صدر نے مزید کہا کہ شاید ایران چین سے زیادہ اس بات کی تمنا کر رہا ہے کہ آئندہ صدارتی انتخابات میں، میں ناکام ہو جاؤں۔
ڈونلڈ ٹرمپ پچھلے چند ہفتے کے دوران بارہا یہ دعوی کرچکے ہیں کہ تین نومبر کے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ایران کے ساتھ نئے سمجھوتے پر پہنچ جائیں گے۔ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے کے حصول کے بارے میں بار بار دعوے ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان نے ایران کے خلاف پابندیوں میں توسیع کی امریکی قرار داد کو مسترد کر دیا ہے اور ٹریگر میکینزم کو فعال بنانے کی مخالفت کی ہے۔
دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اپنے ایک ٹوئٹ میں واشنگٹن کی عالمی تنہائی کا اعتراف کیا ہے۔ مائیک پومپیو نے ایران کے حوالے سے فاکس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو کو اپنے ٹوئٹ سے منسلک کیا ہے جس میں انہوں نے امریکہ کی عالمی تنہائی سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے سلامتی کونسل میں ایران مخالف امریکی قرارداد کی ذلت آمیز ناکامی سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لیے حقائق چھپانے کی بھی ناکامی کوشش کی۔ مائیک پومپیو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کی ناکامی کی توجیہ کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ سلامتی کونسل کے رکن ملکوں نے کھل کر نہیں کہا ہے کہ ایران ہتھیاروں کی خرید و فروخت کرسکتا ہے۔
امریکہ نے سلامتی کونسل میں اسلحہ جاتی پابندیوں میں توسیع کی قرارداد ناکام ہوجانے کے بعد ایران کے خلاف وہ تمام پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا جو ایٹمی معاہدے اور قرارداد بائیس اکتیس کے تحت ہٹالی گئیں تھیں تاہم سلامتی کونسل کے چار مستقل رکن ملکوں اور نو دیگر ممالک نے صراحت کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ امریکہ کا یہ مطالبہ قانونی جواز سے عاری ہے۔