امریکہ عالمی نظام کے لیے سنگین خطرہ ہے: ایرانی مندوب
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے امریکہ کو عالمی نظام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے بعض ملکوں کے دوغلے اور صداقت سے عاری رویے پر کڑی نکتہ چینی ہے۔
ملکی اور عالمی سطح پر قانون کی حکمرانی کے زیرعنوان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قانونی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی کا کہنا تھا کہ امریکہ کی خود سرانہ پالیسیاں عالمی سطح پر قانون کی حکمرانی کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کثیر الفریقی تعاون اقوام متحدہ کے قیام کا اہم ترین ثمر ہے جسے امریکہ کی خودسرانہ پالیسیوں کی وجہ سے سنگین خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ عالمی سمجھوتوں، معاہدوں اور بین الاقوامی اداروں سے امریکہ کی علیحدگی، مختلف ملکوں کے ساتھ تجارتی جنگ کا آغاز اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے بعض ملکوں کے خلاف اپنے خود سرانہ اور جابرانہ اقدامات کے ذریعے اقتصادی اور طبی دہشت گردی کا ارتکاب، امریکہ کے یک طرفہ اور خود سرانہ اقدامات کی محض چند مثالیں ہیں۔
ایرانی مندوب نے کہا کہ عالمی فوجداری عدالت اور اس کے ججوں کو دھمکیاں دینا، عالمی مالیاتی نظام سے ناجائز فائدہ اٹھانا، سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرنے والے ملکوں کو دھمکانا، بعض ملکوں کے مرکزی بینکوں کے اثاثوں کو منجمد کرنا، اقوام متحدہ کے بعض رکن ملکوں کے عہدیداراوں کی رفت و آمد پر پابندی عائد کر کے اقوام متحدہ کے تئیں اپنے وعدوں کو توڑنا، امریکہ کے دیگر ایسے اقدامات ہیں جن سے عالمی سطح پر قانون کی حکمرانی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
مجید تخت روانچی نے مزید کہا کہ عالمی عدالت انصاف میں ایران کی جانب سے امریکہ کے خلاف دائر کیے جانے والے دو مقدمات اور ان پر عالمی عدالت انصاف کے عبوری فیصلے در اصل ایران اور ایرانی عوام کے خلاف امریکی پابندیوں کے غیر قانونی ہونے کا بین ثبوت ہے، لیکن امریکہ نے اقوام متحدہ کی عدالت کے لازم الاجرا فیصلے کا جواب ایران کے خلاف مزید پابندیوں کی صورت میں دیا ہے۔
مجید تخت روانچی نے مالیاتی بدعنوانیوں کے خلاف جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اقوام متحدہ کے انسداد بدعنوانی کنوینشن کے فیصلوں پر عملدرآمد کا پابند ہے اور تہران نے ملکی سطح پر منی لانڈرنگ کے خلاف ٹھوس اقدامات انجام دیئے ہیں۔
ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض ممالک مالی بدعنوانیوں کے خلاف جنگ کے حوالے سے دوغلی اور صداقت سے عاری پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جن کے نتیجے میں بدعنوان عناصر کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع ملے گا اور عالمی سطح پر قانون کی حکمرانی کمزور پڑ جائے گی۔