پابندیاں صرف اسی صورت میں اٹھائی جائیں گی جب ایران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کردے ؛ امریکا
ویانا مذاکرات میں رخنہ اندازی کے باوجود امریکہ نے مذاکرات میں پیشرفت حاصل ہونے کا دعوی کیا ہے۔
امریکی نائب وزیر خارجہ ونڈی شرمین نے ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ویانا مذاکرات کے دوران تمام فریقوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر مکمل علمدرآمد کے حوالے سے پیشرفت ہوئی ہے تاہم اب بھی طویل راستہ طے کرنا باقی ہے۔
ادھر امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جین ساکی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پابندیاں صرف اسی صورت میں اٹھائی جائیں گی جب ایران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کردے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ہم ایٹمی معاہدے کی اسی قدر پابندی کریں گے جسقدر ایران کرے گا۔
اسی دوران ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک بار پھر واضح کردیا ہے کہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کا فیصلہ امریکہ کو کرنا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ میں این بی سی ٹیلی ویژن سے گفتگو میں بھی واضح کرچکا ہوں کہ ایٹمی معاہدے میں واپسی کا فیصلہ سو فی صد امریکہ پر منحصر ہے۔
سعید خطیب زادہ کا کہنا تھا کہ ایٹمی معاہدہ دوبارہ بحال ہوگا مگر اس صورت میں جب امریکہ اس بارے میں لازمی سیاسی فیصلہ کرلے گا اور اس بات کو سمجھ لے گا کہ جولائی دوہزار پندرہ والی بارگیننگ کا دور گزر چکا ہے، جب امریکہ نے ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
دوسری جانب امریکی ویب سائٹ ایکسیوس نے لکھا ہے کہ واشنگٹن نے ہرقسم کی پابندیوں کے خاتمے کو ایران کی جانب سے نصب کی جانے والی جدید ترین سینیٹری فیوج مشینوں کے استعمال کو روکنے سے مشروط کردیا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ نے تین سال قبل، ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیارکرلی تھی اور تمامترعالمی مخالفت کے باجود، سلامتی کونسل کی قرار داد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ایران کے خلاف تمام پابندیاں یک طرفہ طور پرعائد کردی تھیں۔
اس وقت امریکی صدر جوبائیڈن بھی، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اپنائی جانے والی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ جبکہ ایران بارہا اعلان کرچکا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی مکمل واپسی اور تمام پابندیوں کے عملی طور پر ختم ہوجانے کی صورت میں ہی ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کرے گا۔
ویانا میں ایران اور چار جمع ایک گروپ کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جس میں ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جارہا ہے تاہم واشنگٹن کی ہڈدھرمی اور قانون شکنی کی وجہ سے تاحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا ہے۔