نئی حکومت کی تشکیل سے پہلے ایٹمی مذاکرات ممکن نہیں: مغربی میڈیا کا دعوا
مغربی ذرائع نے دعوی کیا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی مذاکرات کا ساتواں دور تہرا ن میں نئی حکومت کی تشکیل سے پہلے ممکن نہیں۔
امریکی جریدے بلومبرگ نے ایٹمی مذاکرات کے شیڈول سے مبینہ طور پر مطلع دو مختلف ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی مذاکرات کا اگلا دور اگست میں ہونے کی توقع ہے۔
ایک اور یورپی ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بلومبرگ کو بتایا ہے کہ توقع ہے کہ تہران، سید ابراہیم رئیسی کے بطور صدر حلف اٹھانے کے بعد مذاکرات پھرسے شروع کرنے کے لیے آمادہ ہوگا۔
ایٹمی معاہدے کی صورتحال واضح کرنے کی غرض سے ویانا میں پچھلے چندماہ سے جاری مذاکرات کے ساتویں دور کے انعقاد کے بارے میں اب تک کی یہ پہلی قیاس آرائی ہے۔ ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے جاری ویانا مذاکرات کے چھٹے دور کے اختتام کو تئیس روز گزر جانے کے باوجود ، اگلے دور کے مذاکرات کے بارے میں کسی حتمی تاریخ کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
ایران اور پانچ جمع ایک گروپ نے کئی برس کے مذاکرات کے بعد، جولائی دوہزار پندرہ میں ویانا میں ایٹمی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی دوہزار اٹھارہ میں ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے واشنگٹن کو اس عالمی معاہدے سے نکالنے اور ایران کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا تھا۔ اب امریکہ کی جو بائیڈن حکومت کا دعوی ہے کہ وہ ویانا مذاکرات کے ذریعے ایٹمی معاہدے میں واپسی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار اگر چہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہوجانے کا بارہا اعتراف کرچکے ہیں تاہم ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لیے لازمی اقدامات سے بھی گریزان ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ ایٹمی معاہدے کی بحالی کی غرض سے چھٹے دور کے مذاکرات ختم ہوئے ایک ماہ پورا ہونے والا ہے لیکن ساتویں دور کے مذاکرات کے لیے کسی تاریخ کا تاحال اعلان نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے اپنی تازہ پریس کانفرنس میں واضح کردیا ہے کہ تہران میں دو باتوں پر پوری طرح اتفاق رائے پایا جاتا ہے، ایک یہ کہ امریکی پابندیاں مؤثر طور پر ہٹائی جائیں اور دوسرے یہ کہ ایٹمی معاہدے کے علاوہ کسی بھی مطالبے یا مطالبات کا اس معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے ایک بار پھر تہران کے اس موقف کا دو ٹوک الفاظ میں اعادہ کیا کہ پابندیوں کے خاتمے اور اس کی صداقت کا یقین ہوتے ہی ایران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدآمد شروع کر دے گا۔