Jul ۲۰, ۲۰۲۱ ۰۸:۵۸ Asia/Tehran
  • امریکہ ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کے درپے

امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے دعوا کیا ہے کہ واشنگٹن انتظامیہ ایران کے خلاف مزید پابندیوں کے نفاذ کا جائزہ لے رہی ہے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں یہ دعوا کیا ہے کہ ویانا میں جاری ایٹمی مذاکرات کے ناکام ہوجانے کی صورت میں جو بایڈن حکومت چین کو ایرانی تیل کی فروخت کے معاملے پر تہران کے خلاف مزید شدید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔

امریکی جریدے نے ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ ویانا میں جامع ایٹمی معاہدے کی دوبارہ بحالی کے لئے جاری مذاکرات چونکہ تزلزل کا شکار ہو چکے ہیں، اس لئے امریکی حکومت ایسے طریقہ کار کا جائزہ لے رہی ہے جس کے ذریعے ایران کو مذاکرات جاری رکھنے پر مجبور کیا جا سکے اور ایران کے مذاکرات کی میز سے ہٹنے کی صورت میں بقول اسکے تنبیہ کی جا سکے۔

خیال رہے کہ ویانا میں جامع ایٹمی معاہدے کی دوبارہ بحالی اور اُس میں امریکہ کی ممکنہ واپسی کے مقصد سے اب تک مذاکرات کے چھے دور انجام پا چکے ہیں اور امریکی حکام کا دعوا ہے کہ وہ آئندہ بھی مذاکرات کے لئے تیار ہیں تاہم اب گیند ایران کے پالے میں ہے۔

امریکہ کا یہ دعوا ایسے عالم میں سامنے آ رہا ہے کہ دوہزار اٹھارہ میں یہ امریکہ ہی تھا جس نے خود غیر قانونی، یک طرفہ اور خودسرانہ طور پر قدم اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی جامع ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نڈ پرایس نے پیر کی شام وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ پر ردعمل ظاہرکرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ ہم تہران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کی تکمیل کے خواہاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ایران کی اگلی حکومت اس حوالے سے قدم آگے بڑھائے گی۔

نڈ پرایس نے اپنی گفتگو میں نہ تو ایٹمی معاہدے سے امریکی علیحدگی کا ذکر کیا اور نہ ہی تہران کے خلاف عائد کی جانے والی غیر قانونی اور یک طرفہ پابندیوں کی جانب اشارہ کیا تاہم دعوی کیا کہ سفارتی عمل کے نتیجہ بخش ہونے تک ایران کے خلاف عائد تمام پابندیاں جوں کی توں برقرار رہیں گی۔

ایران ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی علیحدگی کے بعد سے یہ کوشش کرتا آیا ہے کہ باقی ماندہ فریقوں کی جانب سے اپنے وعدوں کی تکمیل کی شرط پر ایٹمی معاہدے میں باقی رہے لیکن یورپ اور امریکہ نے تاحال نہ تو معاہدے پر عملدرآمد کیاہے اور نہ ہی اس کے تحفظ کے لیے تہران سے کیے جانے والے وعدوں میں سے کوئی وعدہ پورا کیا ہے۔بائیڈن انتظامیہ کا دعوا ہے کہ وہ ویانا میں جاری مذاکرات کے ذریعے ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

موجودہ امریکی عہدیدار ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہوجانے کا بارہا اعتراف کرچکے ہیں تاہم ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لیے لازمی اقدامات سے مسلسل گریز کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی آئی اے ای اے نے کہا ہے کہ ویانا میں جاری ایٹمی معاہدے کی بحالی کے مذاکرات میں پیدا ہونے والے تعطل نے اس عالمی ادارے کے کام کو مشکل بنا دیا ہے۔آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے اپنے ایک انٹرویو میں ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے جاری ویانا مذاکرات میں آنے والے وقفے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

رافائل گروسی نے ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کی مدت ختم ہوجانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تہران نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ عالمی ادارے کے نصب کردہ نگرانی کیمروں کے ذریعے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو بدستور اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے ہے۔

ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان رضاکارانہ نگرانی کا معاہدہ چوبیس جون کو ختم ہوگیا تھا جس کے بعد تہران نے ایٹمی مذاکرات کے پیش نظر معاہدے کی مدت میں پہلے تین ماہ کی اور اس کے بعد ایک ماہ کی توسیع کردی تھی تاہم اس عرصے میں بھی امریکی پابندیاں نہیں ہٹائی گئیں۔

ایران نے موجودہ حالات میں جب ایٹمی معاہدے کے مغربی رکن ممالک پابندیوں اور اقتصادی رکاوٹوں کو جاری رکھنے پر مصر ہیں، آئی اے ای اے کے ساتھ ہونے والے نگرانی کے معاہدے کی تیسری بار توسیع سے انکار کردیا ہے۔تہران نے یہ اقدام ایرانی پارلیمنٹ میں تئیس فروری کو منظور کیے جانے والے اس قانون کے تحت کیا ہے جس میں حکومت کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ اس قانون کی منظوری کے ایک ماہ کے بعد، تمام پابندیاں ختم نہ ہونے کی صورت میں آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کا سلسلہ محدود اور رضاکارانہ نگرانی کا عمل روک دیا جائے۔

ٹیگس