ایٹمی معاہدہ میں واپسی ہمارے مفاد میں ہے: ترجمان امریکی وزارت خارجہ
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں ایٹمی مذاکرات کے بارے میں ایران کی نئی حکومت کے موقف کے حوالے سے واشنگٹن کے موقف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدے میں دوطرفہ واپسی ہمارے مفاد میں ہے۔
ہمارے نمائندے کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نڈ پرائس نے کہا ہے کہ ہم پہلے بھی کئی بار صراحت کے ساتھ اعلان کرچکے ہیں کہ ایٹمی معاہدے میں ایران اور امریکہ دونوں کی واپسی ہمارے قومی مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے میں ایران کی واپسی کی صورت میں اس کی ایٹمی سرگرمیوں کی سخت ترین عالمی نگرانی کا عمل پھر سے شروع کیا جا سکے گا۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ایران میں ابھی نئی حکومت کی تشکیل کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے لیکن انہیں سفارت کاری اور ویانا مذاکرات کی جانب واپسی کے حوالے سے ٹھوس فیصلہ کرنا ہوگا۔
بائیڈن انتظامیہ کا دعوی ہے کہ وہ ویانا میں جاری مذاکرات کے ذریعے ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لیے لازمی راستہ ہموار کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکی حکام اگرچہ بارہا زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے ناکام ہوجانے کا اعتراف کرچکے ہیں لیکن تاحال ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لیے ضروری اقدامات کی انجام دہی سے بھی گریزاں ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے متعلقہ عہدیدار، ویانا میں نئے دور کے مذاکرات کے آغاز میں کئی بار تہران کے اس موقف کا صراحت کے ساتھ اعلان کر چکے ہیں کہ تمام امریکی پابندیوں کے عملی طور پر ختم ہو جانے کے بعد ہی تہران ایٹمی معاہدے پر دوبارہ عملدرآمد شروع کرے گا۔
بین الاقوامی امور میں ایرانی اسپیکر کے معاون خصوصی اور صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کے نامزد کردہ وزیر خارجہ، حسین امیر عبداللھیان نے، تہران کا دورہ کرنے والے جاپانی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں یہ بات زور دے کہی ہے کہ ایران تعمیری مذاکرات اور عملی اقدامات کی صورت میں ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لئے تیار ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ نے سن دوہزار اٹھارہ میں ایٹمی معاہدے سے یک طرفہ علیحدگی اختیار کرلی تھی اور ایران کے خلاف وہ تمام پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں جنہیں اقوام متحدہ کی قرارداد بائیس اکتیس کے تحت ہٹا لیا گیا تھا۔ ایران نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کو ایک سال پورا ہونے کے بعد آٹھ مئی دوہزار انیس کو ایٹمی معاہدے سے مرحلہ وار پیچھے ہٹنے کا عمل شروع کیا تھا جس کا مقصد ایران کی ذمہ داریوں اور حقوق کے درمیان توازن قائم کرنا تھا۔
ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس میں ایران کو اس بات کا حق دیا گیا ہے کہ معاہدے کے کسی بھی رکن یا ارکان کی جانب سے وعدہ خلافی کی صورت میں تہران بھی اس معاہدے پر جزوی یا مکمل عملدرآمد روک سکتا ہے۔