جامع ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لئے مذاکرات جلد شروع کئے جائیں: روس
روس نے امریکہ اور یورپی ملکوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے احیاء کے لئےمذاکرات جلد از جلد شروع کریں اور حقیقت پسندی سے کام لیں۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے تمام فریقوں سے ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے جاری مذاکرات میں جلد از جلد واپس آنے کی درخواست کرتے ہوئے یورپی ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات بارے میں حقیقت پسندی سے کام لیں۔
اقوام متحدہ کے ویانا ہیڈکوارٹر میں تعنیات روس کے مستقل مندوب میخائیل اولیانوف نے بھی آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے کی بھرپور حمایت کی اور تمام فریقوں سے اپیل کہ وہ اس بین الاقوامی معاہدے پر دوبارہ اور مکمل عملدرآمد کا سلسلہ شروع کریں۔
روسی مندوب نے آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی کے حالیہ دورہ تہران اور ایران کے محکمہ ایٹمی توانائی کے سربراہ محمد اسلامی سے ملاقات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بورڈ آف گورنرز کو اس ملاقات کے نتائج کو بھی اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے ویانا ہیڈ کوارٹر میں روسی مندوب نے واضح کیا کہ رافائل گروسی کے دورہ تہران میں فریقین نے گفتگو کو آگے بڑھانے پر زور دیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ سفارت کاری کے ذریعے مسائل کی پیچیدہ ترین گتھیوں کو بھی سلجھایا جاسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈکوارٹر میں تعنیات یورپی یونین کے نمائندے اسٹیفن کلیمنٹ نے بھی اس اجلاس سے خطاب کیا لیکن انھوں نے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی نیز یورپی ملکوں کی عہدشکنی کی جانب کوئی اشارہ کیے بغیر کہا کہ، ان کی تنظیم ایٹمی معاہدے پر مکمل اور موثر عملدرآمد کی حمایت کرتی ہے۔ اسٹیفن کلیمنٹ نے ایٹمی معاہد کی حمایت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کی بحالی کے لیے ویانا مذاکرات کے ازسرنو آغاز کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
عالمی تنظیموں اور اداروں میں امریکہ کے نائب مندوب لوئیس بونو نے اس موقع پر دعوی کیا کہ ان کا ملک جامع ایٹمی معاہدے سے متصادم تمام پابندیاں ہٹانے کے لیے تیار ہے۔ لوئیس بونو نے بھی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی غیر قانونی علیحدگی کی جانب کوئی اشارہ کیے بغیر دعوی کیا کہ واشنگٹن اپنے قریبی اتحادیوں کی ہم آہنگی کے ساتھ ، سفارت کاری کے ذریعے، جامع ایٹمی معاہدے میں دوطرفہ واپسی کی ضمانت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہاں اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ ایران مئی دوہزار اٹھارہ میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کے باوجود، دیگر فریقوں کی جانب سے عملدآمد کی شرط پر اس معاہدے کی یکطرفہ طور پر پابندی کرتا رہا، لیکن یورپی ملکوں نے ایٹمی معاہدے کو باقی رکھنے کی غرض سے کیے جانے والے کسی بھی وعدے پر عمل نہیں کیا۔
ان حالات میں ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل نے، امریکہ کی علیحدگی کے پورے ایک سال بعد آٹھ مئی دوہزار انیس کو ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے تحت، مذکورہ معاہدے سے مرحلہ وار پسپائی کا عمل شروع کیا تھا۔ ایران کے اس اقدام کا مقصد ایٹمی معاہدے میں درج تہران کے حقوق اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان توازن پیدا کرنا تھا۔
ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے تحت ایران کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ مقابل فریق یا فریقوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں معاہدے پر جزوی یا مکمل عملدرآمد روک دے۔