شنگھائی اجلاس میں صدر ابراہیم رئیسی کا خطاب
صدر ایران نے ایشیا کو عالمی تبدیلیوں کا مرکز قرار دیتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے فروغ پر زور دیا ہے۔ اس موقع پر ایران کو شنگھائی تعاون تنظیم کی باقاعدہ رکنیت دے دی گئی اور ایران اس تنظیم کا نواں رکن ملک بن گیا ہے۔
تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بارہ ملکوں کے سربراہوں نے حصہ لیا اور علاقائی ترقی و پیشرفت، امن و سلامتی اور اقتصادی تعاون جیسے امور پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اجلاس میں تنظیم کی بیس سالہ کارکردگی کا بھی جائزہ لیا گیا اور علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شنگھائی تعاون تنظیم کے پروگراموں پر غور کیا گیا۔ ا
جلاس کے دوران رکن ملکوں نے ایران کو تنظیم کا باقاعدہ رکن بنانے کی اسناد ودستاویزات پر بھی دستخط کردیے اور یوں ایران باقاعدہ اس تنظیم کا ممبر ملک بن گیا ہے۔ اجلاس سے ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے بھی خطاب اور شنگھائی تعاون تنظیم کی بیسویں سالگرہ پر ارکان کو مبارک باد پیش کی۔
صدر ایران نے امید ظاہر کی کہ اس تنظیم نے جس طرح مختصر مدت میں علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر نمایاں پوزیشن حاصل کرلی ہے اسی طرح آئندہ بھی آگے بڑھتی رہے گی۔سید ابراہیم رئیسی نے شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت کی حمایت کرنے والے رکن ملکوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔
صدر ایران نے تہذیبی رشتوں کے فروغ کو صاحب تمدن ملکوں کے درمیان تعاون کی بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایشیا علم اور روحانیت جیسے عظیم خزانے کا مالک اور انسانی تہذیب کا گہوارہ ہے۔انہوں نے عالمی اور علاقائی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا اس وقت یونی پولر ازم سے ملٹی لٹرل ازم کی جانب قدم بڑھا رہی ہے اور ایشیا تمام تر تبدیلیوں کا مرکز ہے۔صدر سید ابراہیم رئیسی نے کہا کہ اکیسویں صدی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، باہمی اعتماد، مشترکہ مفادات، مساوات، دائمی صلاح و مشورہ اور مشترکہ تہذیبی اقدار کا فروغ ایک ضرورت ہے۔ انہوں نے پابندیوں اور اقتصادی دہشت گردی کو علاقائی ترقی کے اہداف کی راہ میں اہم ترین رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پابندی اور اقتصادی دہشت گردی کا حربہ آج صرف ایک ملک کے خلاف نہیں بلکہ دنیا کے متعدد آزاد اور خودمختار ملکوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے جس کا اجتماعی طور پر مقابلہ کیا جانا چاہئے۔
صدر ایران نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران پچھلے چالیس برس سے اس لعنت کے خلاف برسرپیکار ہے اور اس نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم عراق اور شام میں داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں کے خلاف جنگ میں ان ملکوں کے اتحادی رہے ہیں اور خاص طور سے شام میں ایران اور روس کا اسٹریٹیجک تعاون ، ایک کامیاب مثال ہے۔
افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے علاقے کے ملکوں کے درمیان تعاون کو ضروری قرار دیتے ہوئے صدر رئیسی نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال کی تمام تر ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے۔صدر نے علاقے کے ملکوں اور خاص طور سے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام کے قیام میں اس ملک کے عوام کی مدد کریں۔ انہوں نے ایک بار پھر ایران کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان میں ایک وسیع البنیاد حکومت کا قیام اس ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔
صدر ابراہیم رئیسی نے ایران کی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ کوئی بھی معاملہ یا بہانہ ہماری پرامن ایٹمی سرگرمیوں میں رکاوٹ یا ان کے خاتمے کا سبب نہیں بن سکتا۔انہوں نے کہا کہ قومی مفادات کے تحفظ کے لیے سفارتکاری ایک اہم راستہ ہے لیکن سفارت کاری اسی وقت کارآمد ہوتی ہے جب تمام فریق اس کی پابندی کریں کیونکہ دباؤ اور دھمکیاں سفارت کاری کی اساس کو کمزوز بنا دیتی ہیں۔ صدر نے کہا کہ پابندیوں کا خاتمہ ایرانی عوام کا مسلمہ اور ناقابل تردید حق ہے اور ہم ایسے کسی بھی عمل کو ہرگز قبول نہیں کرسکتے جو پابندیوں کے خاتمے میں رکاوٹ بنے۔