ایران کے خلاف امریکا اور اسرائيل کی تازہ دھمکیاں اور انکی حقیقت، ایک جائزہ
امریکہ اور اسکی پروردہ غاصب صیہونی حکومت اسلامی جمہوریہ ایران کو گاہے بگاہے دھمکیاں دیا کرتے ہیں اور میدان جنگ میں ایران سے مقابلہ کرنے سے گریزاں یہ دونوں ہی نفسیاتی اور ابلاغیاتی جنگ چھیڑ کر عالمی ذرائع ابلاغ میں خود کو چیمپیئن ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، مگر انکی دھمکیوں کی حقیقت کیا ہے، جانیئے اس مختصر مضمون میں۔
ایران کے خلاف امریکا اور اسرائيل کی تازہ دھمکیاں اور انکی حقیقت، ایک جائزہ
مقالہ نگار: ڈاکٹر محمد مہدی شرافت
( ڈائریکٹر اینڈ سینیئر چیف ایڈیٹر سحر نیوز)
ایران سے امریکا اور اسرائیل کی دشمنی اور ریشہ دوانیوں کا سلسلہ چالیس سال سے جاری ہے۔ اس درمیان انھوں نے ایران کے اندر درجنوں دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیں جن میں بے شمار عام شہری، سیاسی و مذہبی رہنما اور سائنسداں شہید ہوئے۔
جہاں تک ان کی تازہ دھمکیوں کا سوال ہے تو ایران انہیں زیادہ اہمیت نہیں دیتا لیکن ان کی طرف سے غافل بھی نہیں ہے۔
اگر امریکا اور اسرائیل کو یہ یقین ہوتا کہ حملہ کرکے وہ بچ نکلیں گے اور ایران کےجوابی حملے سے محفوظ رہیں گے تو اب تک ان کا حملہ ہوبھی چکا ہوتا۔ لیکن وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ حملہ تو وہ کر سکتے ہیں لیکن پھر جنگ ختم کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہوگا۔
ایران نے اسرائیل کوکھلا انتباہ دے رکھا ہے کہ اگر اس نے کوئي جارحانہ حماقت کی تو اس کا چالیس برس سے جاری سلوگن " اسرائیل باید نابود شود" (اسرائیل کو صحفہ ہستی سے مٹ جانا چاہئے) عملی شکل اختیار کر لے گا۔
اس کے علاوہ ایران نے بحریہ کی طاقت پر کافی توجہ دی ہے ۔ امریکا ایران کے خلاف کوئي بھی جارحیت کرکے خلیج فارس اور آبنائے ہرمز سے محفوظ نہیں نکل سکے گا۔
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد عین الاسد فوجی چھاؤنی پر ایرانی میزائلوں کی بارش سے ایران کی میزائل توانائي امریکیوں پر ثابت ہو چکی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ خطے میں ان کا کوئی بھی فوجی اڈہ ایرانی میزائلوں کی رینج سے باہرنہیں ہے۔
اسی لئے امریکا اور نیٹو کی طرف سے ایران کے میزائل پروگرام کی زیادہ مخالفت کی جارہی ہے۔ ان کے لئے اصل مسئلہ ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ میزائل پروگرام ہے ۔
امریکا کی نفسیات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ویتنا م میں امریکا کو جو سبق ملا ہے اس کے بعد اس نے قبضہ کرنے کے لئے تو فوج اتاری ہے لیکن کسی بھی ملک میں جنگ کرنے کے لئے فوج نہیں اتاری ہے۔
دو ملک ایسے ہیں جن میں امریکا نے براہ راست فوج اتاری؛ افغانستان اور عراق۔ افغانستان میں طالبان اسی کے تیار کردہ تھے۔ طالبان کا اصل حامی پاکستان تھا جس کو امریکا کےایک ٹیلیفون نے نہ صرف خاموش کر دیا بلکہ امریکی مشن میں تعاون پر مجبور کر دیا۔
اور پھر افغانستان میں امریکی فوجیوں نے جنگ کہاں کی ؟ زمین پر تو شمالی اتحاد (North Alliance)نے کام کیا اورافغانستان کا شمالی اتحاد ایران میں تیار ہوا تھا ۔ اس کے کیمپ ایران میں تھے ۔ اس اتحاد کے جنگجوؤں کو ایران کےاندر اس کے کیمپوں میں ہی ٹریننگ ملی تھی۔
یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ ویتنام کے بعد امریکا نے دو ملکوں میں فوج اتاری اور قبضہ کیا اور دونوں ہی ملکوں میں اس کا ساتھ ان قوتوں نے دیا جو ایران میں تیار ہوئی تھیں۔ افغانستان میں شمالی اتحاد نے امریکا کا ساتھ دیا اور جب بارہ سال تک عراق کو غیر مسلح کرنے کی مہم کے بعد امریکا نے عراق میں فوج اتاری تو شیعہ ملیشیا البدر اورعراقی کرد ملیشیا نے عراق کےاندر حالات کو سنبھالا ۔ ان دونوں کے کیمپ بھی ایران میں تھے ۔ ایران میں ہی انہیں ٹریننگ بھی ملی تھی۔
عراقی کردوں کے دو گروپ تھے۔ ایک پیٹریاٹک یونین آف کردستان جس کے لیڈر جلال طالبانی تھے اور دوسری مسعود بارزانی کی کردستان ڈیموکریٹک پارٹی تھی۔ دونوں میں سخت اختلاف تھا۔ ان میں صلح بھی ایران نے کرائی تھی۔
صدام کے سقوط کےبعد پہلے تو پال بریمر عراق کاحاکم بنا اور پھر امریکا کو اقتدا عراقیوں کو سونپنا پڑا اور انتخابات ہوئے تو پہلے الیکشن سے لیکر اب تک جتنی بھی حکومتیں بنیں سب ایران کی طرفدارتھیں۔
کرد رہنماؤں میں جلال طالبانی صدربنے اور مسعود بارزانی عراق کے کرد ریجن کےحاکم۔
حقیقت یہ ہے کہ عراق اورافغانستان دونوں ملکوں میں امریکا اور ایران کے دشمن مشترک ہوگئے تھے، عراق میں صدام اور افغانستان میں اس وقت کے طالبان ۔
اس لئے جب امریکا نے ان کے خلاف کارروائي کی تو ایران نے، مداخلت نہیں کی بلکہ خاموشی اختیار کی لیکن ایران کے اندر تیار ہونے والے افغان شمالی اتحاد اور عراق کی البدر تنظیم اور عراق کی دونوں کرد جماعتوں کے جنگجوؤں نے دونوں ملکوں میں اس وقت کی حکومتوں کو گرانے میں کردار ادا کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اگر چہ افغانستان اورعراق دونوں ملکوں میں امریکا نے حکومتیں گرائيں لیکن امریکی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کے بعد بننے والی دونوں ملکوں کی حکومتیں ایران کی طرفدار رہی ہیں۔
امریکا کسی ملک پر قبضہ کرنے کے لئے تو فوج اتار سکتاہے جنگ کرنے کے لئے نہیں ۔ ایران کے بارے میں وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ایران جوابی حملہ کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرے گا۔ ایران بارہا واضح کرچکا ہے کہ اب مار کے بھاگ جانے کا دور چلا گیا۔
جہاں تک اسرائیل کی دھمکیوں کا سوال ہے تو وہ ایران کےحمایت یافتہ حزب اللہ اور حماس کے مقابلےمیں عاجز ہے اور ان دونوں کو شکست دینے میں ناکام رہا ہے بلکہ اُسے ان سے شرمناک شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے تو ایران پر براہ راست حملہ کرنے کی جرائت وہ کیا کرے گا۔
البتہ ایران اس کی دھمکیوں کی طرف سے غافل ہرگز نہیں ہے اور غافل رہنا بھی نہیں چاہئے ۔ اس نے ابھی چند روز قبل جو فوجی مشقیں انجام دی ہیں ان میں اسرائیل کی ڈیمونا ایٹمی تنصیبات سمیت سبھی اہم اور حساس مراکز پرحملے کی مشقیں بھی انجام دی گئي ہیں جن کا واضح پیغام یہ ہے کہ پورا مقبوضہ فلسطین اور سبھی حساس اوراہم اسرائیلی مراکز اور تنصیبات ایران کے نشانے پر ہیں ۔
ایران کے خلاف امریکا اور اسرائيل کی دھمکیوں کو غیر ایرانی میڈیا نے بہت اچھالا ہے۔ ایرانی ذرائع ابلاغ نے ان کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے اس لئے کہ یہ دھمکیاں نئي نہیں ہیں اور ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں جس میں عالمی ذرائع ابلاغ نے ہمیشہ امریکا اور اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اس وقت بھی ان دھمکیوں کو اچھال کے در اصل اس نفسیاتی جنگ کو مہمیز کیا جا رہا ہے۔