ایران کی انتقامی کارروائی کے آغاز کو دو سال ہو گئے
دہشت گرد امریکی فوجیوں کے ہاتھوں سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد، عراق میں امریکی فوجی چھاونی عین الاسد پر ایران کےمیزائل حملے کو دو سال بیت رہے ہیں لیکن امریکی حکام شروع ہی سے اس بارے میں بدستور حقائق کو آشکار کرنے سے گریزاں ہیں۔
ایران کی سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی، تین جنوری دوہزار بیس کو جب عراق کے سرکاری دورے پر تھے، بغداد ایئرپورٹ کے قریب دہشت گرد امریکی فوج کے ہوائی حملے کا نشانہ بنے اور عراق کی عوامی رضاکار فورس کے ڈپٹی کمانڈر جنرل ابومہدی المہندس اور دیگر آٹھ افراد کے ہمراہ شہید ہوگئے تھے۔
دہشت گرد امریکی حکومت کی اس کارروائی کے بعد، پہلے جوابی اقدام کے طور پر ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے آٹھ جنوری دوہزار بیس کی رات ڈیڑھ بجے، عراق کے صوبے الانبار میں واقع امریکی فوجی چھاؤنی عین الاسد پر درجنوں میزائل برسائے تھے۔
البتہ جیسا کہ ایرانی کمانڈروں کا کہنا ہے وہ انتقام کا آغاز تھا جو ابھی جاری و ساری ہے۔ ایران کی اس انتقامی کارروائی کے چند گھنٹے بعد اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ عراق میں ہماری دو فوجی چھاؤنیوں کو حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔
یہ بھی دیکھیئے: شہید قاسم و ابو مہدی کا انتقام ابھی جاری ہے۔ ویڈیو
میزائل حملے کے فورا بعد ہی، مذکورہ فوجی چھاؤنی میں تعینات امریکی فوجیوں کو پہنچنے والے جانی اور مالی نقصانات کے بارے میں متضاد خـبریں سامنے آنے لگیں۔
ایران کے میزائل حملے کے تین روز بعد سب سے پہلے سی این این نے عین الاسد چھاونی پر حملے کی ابتدائی ترین اور انتہائی کلوز اپ فوٹیج نشر کی تھیں۔ سی این این کی نمائندہ آروا ڈیمون نے امریکی چھاؤنی کا دورہ کیا اور ایران کے حملے میں ہونے والے نقصانات کی فلمیں بنائیں جو اب سے پہلے تک عراق میں امریکیوں کی انتہائی اہم چھاونی ہوا کرتی تھی۔
ڈیمون نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اس چھاؤنی میں کوئی بھی چیز باقی نہیں بچی ہے لیکن تعجب ہے کہ کسی فوجی کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔
عین الاسد چھاونی پر میزائل حملے کے بعد کے ابتدائی ایام میں روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک فوجی ذریعے کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس حملے کے نتیجے میں، ایک ٹاور پر ڈیوٹی دینے والے دو امریکی فوجی باہر جا گرے جبکہ درجنوں دیگر بے ہوش گئے۔
امریکی حکام، حقائق کو چھپانے کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے بتدریج، اس حملے سے متعلق پوشیدہ حقائق بیان کر رہے ہیں۔ سی این این نے بعد میں اپنی رپورٹ میں کہا کہ عین الاسد پر ایران کے میزائل حملے میں اس سے کہیں زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے جتنا امریکی حکومت بتارہی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ عین الاسد فوجی چھاونی عراق کے شہر الرمادی کے مغرب میں ایک سو بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور سن دوہزار تین سے دوہزار گیارہ تک اور اس کے بعد سن دوہزار چودہ سے اب تک امریکی فوج کے زیر استعمال رہی ہے۔