مذاکرات برائے مذاکرات قابل قبول نہیں، مغربی فریق فیصلے کے لئے سنجیدہ ہو: ایران
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ مذاکرات برائے مذاکرات قابل قبول نہیں بلکہ ایک اچھے معاہدے کیلئے مذاکرات قابل قبول ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ ویانا مذاکرات میں ایران نے کافی نرمی کا مظاہرہ کیا ہے اور ایران سمجھتا ہے کہ حتمی سمجھوتے کے لئے وقت کے تعین کا اختیار مغربی فریق کے پاس ہے تاکہ وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کر کے حتمی سمجھوتے کے حصول کو ممکن بنا سکے۔
انھوں نے کہا کہ مذاکرات برائے مذاکرات قابل قبول نہیں بلکہ ایک اچھے معاہدے کے لئے مذاکرات قابل قبول ہیں ۔وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران ویانا مذاکرات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہا ہے جبکہ مغربی فریقوں نے مذاکرات میں بارہا سخت مراحل میں اعلان کیا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز ترک کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہان نے یورو نیوز چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی حکومت کی جانب سے ایران پر پابندیاں عائد کئے جانے کے باوجود ایران کو وہ گوشہ نشیں اور تنہا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ہم ویانا میں مذاکرات برائے مذاکرات کےلئے نہیں گئے بلکہ ہمارا اصل مقصد ایک اچھے معاہدے تک رسائی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے معاہدے سے اتنا قریب نہیں ہوئے تھے۔
وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اس بات پر زور دیا کہ مغربی فریقوں کی حکمت عملی اور لچک سے چند گھنٹوں میں مذاکرات نتیجے تک پہنچ جائیں گے۔انھوں نے ایران اور امریکہ کے درمیان براہ راست مذاکرات نہ ہونے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے اور امریکیوں کے درمیان بے اعتمادی کی اونچی دیوار کھڑی ہے۔
دوسری جانب پابندیوں کے خاتمے کے لئۓ مذاکرات کے لیے یورپی یونین کے نمائندے انریکے مورا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ مذاکرات ایک نازک مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اور اہم مسائل کو حل کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ویانا مذاکرات ایک حساس مرحلے پر پہنچ چکے ہیں، ہم دس ماہ کی بات چیت کے بعد اختتام کے قریب ہیں البتہ کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے اہم مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حتمی نتیجہ ابھی تک واضح نہیں ہے، اور تمام وفود مکمل طور پر کوبرگ ہوٹل میں کام کر رہے ہیں۔
ویانا میں پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا آٹھواں دور جو ستائیس دسمبر کو شروع ہوا ہے بات چیت کے طویل ترین ادوار میں سے ایک ہے۔ وفود کی اکثریت تسلیم کرتی ہے کہ مذاکرات آخری مرحلے میں پہنچ چکے ہیں اور حتمی معاہدہ دستیاب ہے تاہم مذاکرات اب ایسی حالت میں ہیں کہ اس کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار صرف اور صرف مغربی فریقوں کے سیاسی فیصلوں پر ہے۔ اگر مغربی فریق ضروری فیصلے کر لیں جس کا انہیں علم ہو تو باقی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور چند دنوں میں حتمی معاہدہ ہو سکتا ہے۔
وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا ہے کہ ایران ایک ذمہ دار ملک ہے اور اس نے بارہا اعلان کیا ہے کہ معاہدے سے امریکہ علیحدہ ہوا ہے اور اس نے ہی بین الاقوامی ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی خلاف ورزی کی ہے اور اسے ہی معاہدے میں واپس لوٹنے کے حالات سازگار بنانا ہوں گے اور اسے پابندیوں کو ختم کر کے معاہدے میں واپس لوٹنا ہو گا۔