روس کے خلاف یورپی یونین کی پابندیوں کے چھٹے پیکج کا اعلان
یورپی یونین نے روس کے خلاف اپنی پابندیوں کی تفصیلات کا اعلان کردیا ہے۔ یورپی یونین کی پابندیوں میں روس کے فوجی و سیکورٹی ادارے اور شخصیات بھی شامل ہیں
یورپی یونین، یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے روس کے خلاف کئی بار پابندیوں کے پیکج کا اعلان کرچکی ہے یہاں تک کہ اس کا سلسلہ روس کے انرجی کے شعبے تک پہنچ چکا ہے لیکن بعض رکن ممالک کی مخالفت کی بنا پر وہ اسے نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ یہ پابندیاں ایسی حالت میں نافذ کی گئی ہیں کہ مغرب کو ان تمام اقدامات اور پابندیوں کے باوجود یہ تشویش ہے کہ روس کے خلاف اقتصادی شعبے خاص طور سے تیل اور گیس کے میدان میں پابندیاں نافذ کرنے سے یورپ کی اقتصادی اور انرجی کی عالمی منڈی کی صورت حال پہلے سے زیادہ درہم برہم ہوجائے گی ۔
یوپی ممالک میں روس کے خلاف پابندیوں کی پالیسی جاری رہنے سے یورپ کی داخلی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ یورپی یونین نے اعلان کیا ہے کہ نئی پابندیوں میں سمندر کے راستے روس سے تیل کی درآمدات پرپابندی بھی شامل ہے اور یہ پابندیاں آئندہ پائپ لائن کے ذریعے روس سے تیل کی درآمدات تک بڑھا دی جائیں گی۔
روس کےخلاف پابندیوں کے چھٹے پیکج کی تفصیلات کے مطابق روس کے تین بڑے بینکوں کی سوئفٹ تک رسائی ختم کردی جائے گی جبکہ ان تین روسی ٹی وی چینلوں کی نشریات کو بھی ممنوع قراردے دیا گیا ہے جن پر بریسلز جنگی پروپیگنڈے میں کردار نبھانے کا الزام لگاتا ہے۔
روس کے خلاف یورپی یونین کی نئی پابندیوں میں ماسکو کے لئے برآمدات بالخصوص کیمیاوی مواد اورجدید ترین ٹیکنالوجی کی برآمدات بھی شامل ہیں، امریکہ اور یورپین یونین کا خیال ہے کہ وہ پابندیوں کے ذریعے روس کو یوکرین جنگ روکنے پرمجبور کرسکتے ہیں۔
درایں اثنا نیٹو کے سربراہ ینس اسٹولٹنبرگ نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امریکہ ، یوکرین کی حمایت کا اصلی عامل شمار ہوتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ایک طویل جنگ کے لئے تیار رہنا چاہئے جو ایک تھکا دینے والی جنگ بن چکی ہے۔
اسٹولٹنبرگ نے کہا کہ جنگ آخر کار مذاکرات پر ختم ہوگی اور ہمیں مذاکرات میں یوکرینیوں کی پوزیشن بہتر بنانے میں مدد کرنا چاہئے۔ نیٹو کے سربراہ نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ تنازعہ بڑھانا اور نیٹو اور روس کے درمیان جنگ میں شدت نہیں چاہتے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ روسی حکام نے با رہا اعلان کیا ہے کہ اگر یوکرین ، مذاکرات کی میز پر واپسی پر آمادگی کا اعلان کرے تو ماسکو بھی اس کا مثبت جواب دے گا اور یوکرین کے اندر عزم و ارادہ نہ ہونے کی بنا پر مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے ہیں۔