ایران کا تحریری جواب یورپی یونین کے حوالے
اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی معاہدے کی بحالی سے متعلق یورپی یونین کے مجوزہ سمجھوتے کے متن کا تحریری جواب بھیج دیا ہے اور واضح کردیا ہے کہ اگر امریکہ حقیقت پسندی اور لچک کا مظاہرہ کرے سمجھوتے کا حصول ممکن ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے یورپی یونین کی جانب سے پیش کیے جانے والے ویانا معاہدے کے تازہ ترین متن کے بارے میں اپنا نقطہ نگاہ تحریری طور پر اس یونین کے حوالے کردیا ہے۔
جوبات ایران کی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تین معاملات پر اختلافات پائے جاتے ہیں جن میں سے دو کے بارے میں امریکہ نے زبانی طور پر لچک دکھانے کا عندیہ دیا ہے لیکن اس بات کو معاہدے کے متن میں شامل کیے جانے کی ضرورت ہے۔
تیسرا معاملہ ایٹمی معاہدے پرمستقل عمل کیے جانے کی ضمانتوں کا ہے اور امریکہ کو اس معاملے میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔
مذکورہ معاملات پر پیر کی شام ایران کی قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کے دوران تفصیلی غور و خوض کیا گیا اور آخرکار ایران نے اپنا موقف تحریری شکل میں رات بارہ بجے کے قریب مذاکرات کے کوآرڈینٹر یعنی یورپی یونین کے حوالے کردیا۔
ایران کی مذاکراتی ٹیم کے ایک مشیر محمد مرندی نے اپنے ٹوئٹ میں صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ تہران نے اپنے خدشات کو کھل کر بیان کردیا ہے، لیکن باقی ماندہ مسائل کا حل چنداں دشوار بھی نہیں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران کی تشویش دراصل ، ایٹمی معاہدے کے بارے میں مغربی ملکوں کی وعدہ خلافیوں کے تناظر میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ معاہدہ ہوجائے گا، لیکن انتا ضرور ہے کہ پہلے کے مقابلے میں معاہدے کے زیادہ قریب ہیں۔
ایران کے خلاف ظالمانہ اور غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کا تازہ دور چار اگست کو ویانا میں شروع ہوا تھا اور آٹھ اگست تک جاری رہا۔ مذاکرات کے اس دور میں یورپی یونین کے کوآرڈینیٹر انریکے مورا کی جانب سے چند تجاویز پیش کی گئی تھیں۔
ویانا مذاکرات میں شامل تقریبا تمام فریق ایران کے خلاف ظالمانہ اور غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات کو جلداز جلد نمٹانے پر متفق ہیں لیکن حتمی معاہدے کا حصول باقی ماندہ چند ایک مگر اہم ترین موضوعات کے بارے میں امریکہ کے سیاسی فیصلوں پر ٹکا ہوا ہے۔
امریکہ کی ظالمانہ اور غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات میں جو بھی پیشرفت دکھائی دے رہی وہ ایران کی مذاکراتی ٹیم کی تعمیری تجاویز اور اقدامات کا نتیجہ ہے۔ لیکن امریکہ کی موجودہ حکومت ٹرمپ انتظامیہ کے غیر قانونی اقدامات سے ایٹمی معاہدے کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے سے گریزاں ہے اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی پرعمل پیرا ہے جو مذاکرات کے طول پکڑنے کا سبب بنا ہوا ہے۔
ایک ذمہ دار ملک کی حثیت سے اسلامی جمہوریہ ایران بارہا اعلان کرچکا ہے کہ چونکہ امریکہ نے علیحدگی اختیار کرکے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے لہذا پہلے اسے تہران کے خلاف پابندیاں ختم کرکے معاہدے میں واپس آنا ہوگا اور معاہدے پرعملدرآمد جاری رکھنے کی قابل قبول اور محسوس کی جانے کی والی ضمانتیں بھی فراہم کرنا ہوں گی۔