ایران، روس اور چین نے بورڈ آف گورنرز کی تہران مخالف قرارداد مسترد کردی
محسن نذیری اصل نے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی ایران مخالف قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ قراداد پیش کرنے والوں کے سیاسی مقاصد کبھی پوری نہیں ہوں گے۔
اقوام متحدہ کے ویانا ہیڈکوارٹر میں تعینات ایران کے مستقل مندوب محسن نذیری اصل نے کہا کہ ایران مخالف قراراد کا مسودہ تیار کرنے والوں نے اپنے غیر تعمیری رجحان کو جواز فراہم کرنے کے لیے بورڈ آف گورنرز کو من گھڑت اور بے بنیاد اطلاعات و معلومات فراہم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپی ٹرائیکا اور امریکہ نے اس عالمی ادارےکے اجلاس کو اپنے قلیل سیاسی مقاصد کے حصول کا ہتھکنڈا بنانے کی کوشش کی ہے حالانکہ قرارداد میں پیش کردہ معاملات اس ادارے کی ذمہ داریوں اور اختیارات سے باہر ہیں۔
نذیری اصل کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، یورپی ٹرائیکا اور امریکہ کی پیش کردہ قرارداد کو سیاسی محرکات کی حامل ،غیر تعمیری اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہے اور اسے ہر گزقبول نہیں کرے گا۔
انہوں نے اس قرارداد کے ذریعے ، ایران سے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کے مطالبے کو بھی بے معنی قرار دیتے ہوئےکہا کہ تہران ، ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہا ہے لہذا مذکورہ ممالک کا بورڈ اف گورنرز کو استعمال کرتے ہوئے ایران تعاون کا مطالبہ کرنا بھی مضحکہ خیز ہے۔
آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز میں چین کے نمائند وانگ چانگ نے ایران مخالف قرارداد کی منظور ی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ تہران پر دباؤ ڈالنے سے ایٹمی معاملے کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی بلکہ اس کا الٹا نتیجہ برآمد ہوگا۔
چین کے نمائندے کا کہنا تھا کہ سیف گارڈ سے متعلق باقی ماندہ مسائل بنیادی طور پر ایران اور آئی اے ای اے کا دو طرفہ معاملہ ہیں اور ان معاملات کو فریقین کے درمیان دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
بین الاقوامی اداروں اور تنظیوں میں روس کے مستقل مندوب میخائل اولیا نوف نے بھی یورپی ٹرائیکا جمع امریکہ کی ایران مخالف قراراد کو غیر تعمیری قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ اس قرارداد نے سیف گارڈ معاملات اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں ویانا مذاکرات کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے بعد سے اسرائیل کے دباؤ کے تحت، آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے منظور کی جانے والی یہ تیسری ایران مخالف قرارداد ہے، جس کی چین اور روس نے کھل کر مخالفت کی ہے۔
اس سے پہلے جون دوہزار بیس اور جون دوہزار اکیس میں بھی ایران کے خلاف اس سے ملتی جلتی قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی میں چلنے والے یورپی ممالک ماضی میں بھی ایران کے پرامن ایٹمی سرگرمیوں میں فوجی مقاصد کی جانب انحراف کےجھوٹے دعوے کرتے رہے ہیں۔
ایران مغربی ملکوں کے دعوؤں کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے واضح کرچکا ہے کہ این پی ٹی معاہدے کے رکن کی حیثت سے تہران پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال کا حق رکھتا ہے۔
ایران کی ایٹمی تنصیابات کا بار بار معائنہ کرنے والے عالمی معائنہ کاروں نے بھی بارہا اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیوں میں کسی بھی قسم کے انحراف کا مشاہدہ نہیں کیا گیا۔