بینکنگ تعلقات شروع کرنے کے لیے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تبادلہ خیال
ایران کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ایران نے سعودی عرب کے ساتھ بینکنگ تعلقات کے دوبارہ آغاز کے لیے دو طرفہ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ دوسری جانب سعودی رہنماؤں نے ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کے امریکہ کے مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔
سحرنیوز/ایران: اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خزانہ سید احسان خاندوزی نے بدھ کے روز نامہ نگاروں سے بات چیت میں اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب اور اپنے سعودی ہم منصب سے ملاقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے دونوں ملکوں کے درمیان پروازوں کی بحالی اور بینکوں کی شاخیں کھولنے کے بارے میں سعودی عرب کے وزیر خزانہ سے بات چیت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے سعودی ہم منصب سے سیاسی تعلقات کی بحالی کے بعد اقتصادی اور تجارتی لین دین کے آغاز، دونوں ملکوں کے بینکوں کی شاخیں کھولنے اور حج کی ادائیگی سمیت مختلف موضوعات پر بات چیت کی ہے۔
سید احسان خاندوزی نے گذشتہ جمعرات کے روز اسلامی ترقیاتی بینک کے اجلاس میں شرکت اور اس بینک اور سعودی عرب کے حکام سے ملاقات کے لیے ایک اقتصادی وفد کے ہمراہ جدہ کا دورہ کیا تھا جہاں سرکاری حکام نے ان کا استقبال کیا۔
درایں اثنا عرب میڈیا نے کہا ہے کہ مختلف امریکی وفود نے حالیہ ہفتوں کے دوران کئی بار سعودی عرب کا دورہ کیا ہے جس کا مقصد سعودی حکام سے ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کا مطالبہ کرنا تھا، عرب میڈیا کے مطابق سعودی حکام نے اس کے جواب میں کہا ہے اس فیصلے کو واپس نہیں لیا جائے گا۔
اساس میڈیا ویب سائٹ نے اپنے ایک مضمون میں باخبر ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی حکام نے حالیہ ہفتوں کے دوران سعودی عرب کا دورہ کرنے والے امریکی وفود کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کی بحالی کا فیصلہ ہرگز واپس نہیں لیں گے اور وہ اپنے اور خطے کے مفادات کے تناظر میں دنیا کی کسی بھی اقتصادی اور سیاسی طاقت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں آزاد ہیں۔
اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن کو آئندہ اس نئے جیواسٹریٹجک عزم و ارادے کا احترام کرنا ہو گا کہ جس سے خطے میں ایران اور سعودی عرب کا معاہدہ وجود میں آیا ہے کیونکہ یہ خطہ کشیدگی کے خاتمے اور باہمی مشکلات کو ختم کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے اور آئندہ وہ خطے میں اپنی مسلسل مداخلت کے لیے اس شگاف کو استعمال نہیں کر سکتا ہے۔
اس مضمون میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ واشنگٹن کو یہ قبول کر لینا چاہیے کہ دنیا بدل گئی ہے اور خطہ بھی تبدیل ہو رہا ہے اور ریاض میں جو فیصلے کیے جا رہے ہیں ان میں بڑی طاقتوں کے دباؤ، پروگراموں اور رجحانات پر کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔
اس مضمون میں مزید کہا گیا ہے کہ آج امریکی ڈپلومیسی وقت کو پیچھے لے جانے کی توانائی نہیں رکھتی ہے۔ یہ خطہ واشنگٹن سے بہت زیادہ دور ہو گیا ہے اور یہ وائٹ ہاؤس کے حکام کی غلط پالیسیاں تھیں کہ جنھوں نے ایسے فیصلے کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔