یورپی ملکوں میں ایرانی سفارت کاروں اور شہریوں سے غیر انسانی برتاؤ
امریکہ اور یورپی ممالک انسانی حقوق کے دعویدار اور دیگر ملکوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا دعوی ایسی حالت میں کرتے ہیں کہ ناقابل انکار شرائط سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ یورپی ملکوں کی سیکورٹی حراست اور حوالات میں ایرانی سفارتکاروں اور ایرانی شہریوں کو غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا ہے اور ان کو ایذائیں دی جاتی ہیں نیز ان کی کوئی شنوائی بھی نہیں ہوتی۔
سحر نیوز/ ایران: بلجیئم میں اغوا کئے گئے ایرانی سفارت کار اسداللہ اسدی اور ایرانی شہری حمید نوری کو جسے سوئیڈن میں بے بنیاد الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تھا، انسانی حقوق کے قوانین کے منافی اور غیر انسانی طریقے سے شکنجے دیئے جاتے رہے اور حراست کے دوران وہ معمولی اور ابتدائی ترین انسانی حقوق تک سے محروم رہے۔
بلجیئم میں اغوا کئے گئے ایرانی سفارت کار اسداللہ اسدی اور ایرانی شہری حمید نوری کے ساتھ بلحیئم اور سوئیڈن کی پولیس اور عدلیہ کے غیر انسانی برتاؤ اور نامناسب رویے سے ایک بار پھر انسانی حقوق کے مسئلے میں مغرب کے دوہرے معیار اور مغربی ملکوں کی جانب سے جاری انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔
بلجیئم میں اغوا کئے گئے ایرانی سفارت کار اسداللہ اسدی بلجیئم میں ایک ہزار سات سو نواسی روزقید میں رہنے کے بعد ایران واہپس لوٹے ہیں۔
ایسی قید جس میں سو روز پاگل خانے، اٹھائیس روز برہنہ پانی کے بنکر اور نوے روز کال کوٹھریوں میں گذارنا پڑے تھے۔
اسداللہ اسدی کے تہران واپسی کے بعد غور طلب مسئلہ اس ایرانی سفارتکار کے چہرے پر قبل ازقت آنے والا بڑھاپا اور ان کا ٹوٹ جانا ہے جو اس ایرانی سفارت کار کی ایذارسانی اور دیئے جانے والے شکنجے اور برداشت کی جانے والی صعوبتوں کا نتیجہ ہے۔
اس رو سے انسانی حقوق کی حمایت میں مغرب کی جانب سے کئے جانے والے دعووں کے برخلاف اس ایرانی سفارتکار کے ساتھ سفارتی اصول تو درکنار، کوئی انسانی رویہ تک اختیار نہیں کیا گیا اور انسانی حقوق کے سلسلے میں ویانا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی کی گئی۔
اسد اللہ اسدی کی قید کے دوران انھیں مسلسل غیر انسانی زیادتیوں اور سختیوں اور ابتر حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
اسداللہ اسدی کی دو تحریوں کے دائرے میں جنھیں ان کی اہلیہ نے سوشل میڈیا پر وائرل کیا ہے، یورپی ملکوں میں قید خانوں کی صورت حال کی کچھ اس طرح سے منظر کشی کی ہے۔
کسی قیدی کو اس بات کا یقین تک نہیں آتا تھا کہ انھوں نے اتنے روز پانی کے بنکر میں برہنہ زندگی بسر کی، بد ترین قیدیوں تک کو صرف چند راتوں کو اس قسم کے بنکر میں گذارنا پڑتا ہے اور پھر انھیں سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا جاتا ہے۔
اسداللہ اسدی کی تحریروں کے مطابق بنکر میں رہنے کے دوران انھیں کبھی کھلی فضا میں سانس لینے نہیں دیا گیا۔
بنکر میں ان کا سارا سامان دروازے کے پیچھے تھا سوائے پلاسٹک کے ٹب، ایک کمبل اور ایک ٹوآئلٹ سیٹ کے، جبکہ بنکر کی حالت نہایت بد تر تھی اور شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ غسل خانے کی حالت بھی پانی کے اس بنکر سے بہتر رہی ہوگی۔
اس سے قبل سوئیڈن کی حکومت نے بھی ایرانی شہری حمید نوری کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔
اس ایرانی شہری کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں لیا گیا اور ایم کے او دہشت گرد گروہ کے کہنے پر اس ایرانی شہری کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی۔
سوئیڈن کی پولیس نے ایرانی شہری حمید نوری کو نو نومبر دو ہزار انیس کو اسٹاک ہوم ایرپورٹ سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی، اور نہایت برا سلوک کرتے ہوئے بے بنیاد الزامات کے تحت حراست میں لیا جبکہ آٹھ ماہ تک ان کو ان کے کسی رشتہ دار اور گھروالوں تک سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اس ایرانی شہری کو قونصل خدمات تک سے محروم رکھا گیا اور ایک اغوا شدہ کی طرح رکھا گیا۔
ایم کے او دہشت گرد گروہ نے جس کے ہاتھ تقریبا سترہ ہزار ایرانی حکام و شہریوں کے خون سے رنگین ہیں، ایرانی شہری حمید نوری کے خلاف مختلف قسم کے بے بنیاد الزامات عائد کئے، اور سوئیڈن کی پولیس نے بھی ان ہی الزامات کے مطابق رویہ اختیار کیا اور اس ایرانی شہری کے خلاف کارروائی کی۔
آٹھ مہینے کے بعد اسے گھر والوں سے مختصر ٹیلی فونی گفتگو کرنے دی گئی تاکہ وہ صرف اپنے زندہ ہونے کی خبر دے سکے جبکہ پچیس ماہ بعد بھی اسے اس کے گھر کے کسی فرد سے ملنے اور ملاقات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
حمید نوری تین برسوں کے دوران کوٹھری میں رہے اور انھیں مجموعی طور پر تقریبا تیس گھنٹے ٹیلی فونی گفتگو کرنے اور دس گھنٹے کی ملاقات کی اجازت دی گئی اور اس گفتگو اورملاقات کو بھی نہایت سختی سے کنٹرول کیا گیا اور سخت ترین بندشیں عائد کی گئیں۔