Dec ۰۱, ۲۰۲۳ ۱۶:۳۰ Asia/Tehran
  • رہبر انقلاب کے اس بیان سے مغرب میں مچا ہنگامہ، ایران نے کس طرح علاقے سے امریکی بساط سمٹ دی؟

رہبر انقلاب اسلامی نے گزشتہ 29 نومبر کو پورے ملک کے رضاکاروں بسیجیوں کے ایک گروپ سے ملاقات میں طوفان الاقصی آپریشن کے بارے میں کچھ اہم نکات اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں ایران کے موقف پر روشنی ڈالی۔

سحر نیوز/ ایران: مغربی ایشیائی علاقے کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے بیانات میں پہلا نکتہ گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کے طور پر اس علاقے کے لئے امریکی منصوبوں کی تفصیلات تھی۔

اس منصوبے کے تحت 6 ممالک عراق، شام، لبنان، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ میں سیاسی نظام تباہ ہونا چاہئے اور ان ممالک میں نیا نظام تشکیل پائے۔ اس منصوبے کا ایک مقصد اسلامی جمہوریہ ایران اور استقامت کے محاذ پر حملہ کرنا تھا لیکن نہ صرف مڈل ایسٹ منصوبہ عملی نہيں ہو سکا بلکہ مغربی ایشیائی علاقے میں امریکی منصوبے بھی ناکام رہے اور بڑے خرچے کے باوجود، اس علاقے میں امریکی کی پوزیشن کمزور ہوگئی اور علاقے میں استقامت کی پوزیشن مضبوط ہوئی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس سلسلے میں فرمایا کہ نیا مشرق وسطیٰ آج کے مقابلے میں 180 درجے مختلف ہے، خطے میں اس منصوبے اور سازش کو ایران کی عظیم اور کارگر طاقت سے ناکام بنا دیا گیا، اس عظیم طاقت کے پرچم بردار جنرل قاسم سلیمانی نام کا ایک شخص تھا، تو اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی کا نام ایرانی عوام میں اتنا مقبول اور دشمنوں کے لیے اتنا پریشان کن کیوں ہے؟ جی ہاں، خطے کا سیاسی جغرافیہ بدل رہا ہے، یہ بنیادی تبدیلی ہے لیکن یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں بلکہ مزاحمتی محاذ کے مفاد میں ہے۔ ہاں مغربی ایشیا کے سیاسی جغرافیے کا نقشہ بدل گیا لیکن مزاحمت کے حق میں، مزاحمت کامیاب ہوئی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیانات میں دوسرا نکتہ جو پہلے نکتے کا ہی تسلسل تھا، یہ تھا کہ علاقائی تبدیلی ڈی امریکنائزیشن کی طرف بڑھی ہے اور طوفان الاقصیٰ اسی تناظر میں اہم رہا ہے۔ امریکہ اس خطہ پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن آج اس خطے پر امریکہ کے تسلط سے انکار کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔  

رہبر انقلاب اسلامی کے بقول ڈی-امریکنائزیشن، امریکہ کے ساتھ سیاسی تعلقات منقطع کرنا نہیں ہے بلکہ خطے پر امریکی تسلط اور اس کے اثر و رسوخ  کو مسترد کرنا ہے جو زور پکڑ چکا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے بیانات میں تیسرا نکتہ خطے میں جعلی اور مسلط کردہ دوہرے معیارات کو رد کرنا اور حقیقی اور سچے معیارات پر زور دینا ہے۔

انہوں نے فرمایا کہ عالم اسلام کے دشمنوں نے ہمیشہ عرب اور غیر عرب، شیعہ اور سنی وغیرہ جیسے جھوٹے پیرامیٹرز مسلط کرنے کی کوششیں کی ہیں اور ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی حکمت عملی کے ساتھ اپنی پالیسیوں اور مفادات کو آگے بڑھایا ہے۔ سپریم لیڈر کے مطابق یہ پالیسی اور دوہرا معیار ناکام ہو چکا ہے اور آج خطے میں واحد معیار مزاحمت اور سر تسلیم خم نہ کرنا ہے۔

سپریم لیڈر نے اس مسئلے میں یہ بھی فرمایا کہ ان پیرامیٹرز کو آپس میں ملا دیا گیا ہے اور ان مسلط کردہ پیرامیٹرز کی جگہ ایک نیا پیرامیٹر خطے پر حاوی ہو گیا ہے اور وہ ہے مزاحمت اور سر تسلیم خم نہ کرنے کا پیرامیٹر۔ مزاحمت کا مطلب ہے امریکی جبر، امریکی توسیع پسندی اور اس کی مداخلت کے سامنے نہ جھکنا۔

رہبر انقلاب اسلامی کے بیان میں چوتھا اسٹریٹجک نکتہ ایک بار پھر مسئلہ فلسطین کے ریفرنڈم پر زور دینا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطینی ریاست کے قیام کی امید کا اظہار کرتے ہوئے مغرب کے اس دعوے کو رد کیا کہ ایران یہودیوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ فلسطینی حکومت کی ذمہ داری، تمام فلسطینیوں کی ریفرنڈم میں شمولیت کی اسلامی جمہوریہ ایران کی عقلی اور پائیدار حکمت عملی پر مبنی ہے۔

ان شبہات کا واضح طور پر جواب دیتے ہوئے کہ ایران یہودیوں کو خاتمے کی کوشش کر رہا ہے، اس حکمت عملی پر زور دینا اس وقت ضروری ہے کیونکہ مغرب، مسئلہ فلسطین اور اسرائیل پر یہود دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس اس حکومت کے  غاصب اور ناجائز ہونے اور  ریفرنڈم سے توجہ ہٹانے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔

ٹیگس