Oct ۲۹, ۲۰۲۵ ۱۹:۴۲ Asia/Tehran
  • ایران اور اس کے دشمنوں کے درمیان پھر سے تصادم کا کتنا خدشہ؟

بارہ روزہ جنگ اگرچہ بظاہر ختم ہو گئی ہے لیکن اصل مقابلہ اب شروع ہوا ہے؛ یعنی عسکری جنگ سے انفارمیشن ، سیکوریٹی اور نفسیاتی جنگ کا میدان۔ نور نیوز کا ایک تجزیہ

سحر نیوز/ ایران: بارہ روزہ جنگ اگرچہ بظاہر ختم ہو گئی ہے لیکن  اصل مقابلہ اب شروع ہوا ہے؛ یعنی عسکری جنگ سے انفارمیشن ، سیکوریٹی اور نفسیاتی جنگ کا میدان۔

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ، جو اس سال اپنی پارلیمنٹ (کنیسٹ) اور کانگریس کے انتخابات میں مصروف ہیں، عسکری تصادم کا خطرہ مول لینے سے گریز کرتے ہوئے معلوماتی اور نفسیاتی جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

 

 ایران کے خلاف 12 روزہ جنگ نے خطے میں خطرے کے توازن کی ایک نئی شکل پیش کی: اگرچہ  ایک دوسرے کو چوٹ پہنچانے کا عمل عسکری مرحلے میں داخل ہوگیا تھا لیکن اب کئی ماه سے ساری  توجہ خفیہ  آپریشن اور نفسیاتی جنگ کی طرف مبذول ہو چکی ہے۔

  ان حالات میں  روسی صدر ولادیمیر پوتین کا حالیہ پیغام  کہ  جس میں انہوں نے  واضح طور پر  کہا ہے کہ  اسرائیلی عہدیداروں نے خفیہ چینلز کے ذریعے ماسکو کو بتایا ہے کہ وہ "ایران سے تصادم نہیں چاہتے" اور انہوں نے یہ پیغام روس کے "ایرانی دوستوں" تک پہنچانے کی درخواست کی ، اس بات کی علامت ہے کہ اس جنگ کے اہم کھلاڑی براہِ راست کشیدگی کم کرنا چاہتے ہیں  اس کے ساتھ یہ اعلان اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ متعلقہ فریق سفارتی کاوشوں کو اہمیت دے رہے ہيں۔

لیکن ظاہری پر سکون ماحول سے  غلط فہمی نہيں ہونی چاہیے۔  بہت سے حالات اور پہلو ہيں جن کے  پیشن نظر یہ نیا سال "احتیاط کا سال"  بن گيا ہے: اسرائیل  میں پارلیمانی الیکشن  اور امریکہ میں سیاسی رسہ کشی وہ اسباب ہیں جن کے پیش نظر عالمی رہنما عملی طور پر احتیاط  کی سمت بڑھ رہے ہيں۔ قلیل مدت میں یہ احتیاط براہِ راست عسکری  تصادم  میں اضافے کو روکے گی، لیکن اس سے دیگر میدانوں میں تخریبی سرگرمیاں خاص طور پر  خفیہ آپریشن، سیکوریٹی کارروائياں، ٹارگیٹ کلنگ اور سائبر  وار میں شدت آئے گی۔

محاذ میں تبدیلی میں تہران کے لیے دو اہم پیغامات ہیں:

اول:  دشمن کی جانب سے  " جسارت کے ساتھ آپریشن "  کیا جا سکتا ہے لیکن اگروہ  ناکام ہوا تو اسرائیل اور امریکہ میں اس کے داخلی اور انتخاتی سیاسی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ 

دوم: خطرے کی نوعیت میں تبدیلی، اور اس کے نتیجے میں آنے والے مہینوں میں وسیع پیمانے پر عسکری کارروائی کے امکان میں  نسبتا کمی  آئے گی۔

عملی خطرات کے تناظر میں، اگلے دو مہینوں کے دوران  ٹارگیٹ کلنگ ، محدود آپریشن  ہو سکتے ہیں اور اس حکمتِ عملی کی وجہ بالکل واضح ہے: خطرناک آپریشن میں ناکامی کے نتائج فوری طور پر انتخابات کو متاثر کر سکتے ہيں اس لئے

خفیہ اور سیکوریٹی آپریشن زيادہ جسارت کے ساتھ آگے بڑھائے جا سکتے ہيں۔

ان حالات میں دشمن سیکوریٹی ، خفیہ ایجنسیوں اور اس طرح کے دیگر شعبوں میں مختلف سازشیں تیار کر سکتا ہے اور خاص طور پر معیشت  کے میدان میں یہ سازش بڑے پیمانے پر ہو سکتی ہے ۔  

موجودہ جنگ، محض محاذ پر اور روایتی ہونے کے بجائے، دوسری نوعیت اختیار کر چکی ہے۔ اس لئے اس جنگ میں فتح کے لئے ہر پہلو پر نظر رکھنی ضروری ہے۔

(نور نیوز سے ماخوذ)

 

ٹیگس