دنیا کے انقلابات اور اسلامی انقلاب میں فرق
اس صدی کا پہلا انقلاب 1917 میں روس میں آیا تھا اور اس کے بعد چین، کیوبا، ایران اور نیکاراگوئے میں ایک کے بعد ديگر انقلابات آئے لیکن یقینی طور پر اس صدی کا سب سے اہم اور امتیازی انقلاب ایران کا اسلامی انقلاب تھا جو 1979 میں واقع ہوا۔ اس انقلاب نے ڈھائی ہزار سال قدیمی شاہی نظام کی تو بيخ کنی کر ہی دی اور ساتھ ہی اس نے سوشل سائنس اور عالمی تعلقات عامہ کے علم میں رائج نظریات کو پرکھنے کے لئے ایک مناسب کسوٹی فراہم کروادی ۔
عام طور پراس انقلاب نے صرف ایک حکومتی نظام کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی ڈھانچے کو ہی نہیں بدلا بلکہ سوشل سائنس و عالمی تعلقات عامہ کی علمی بنیادوں کو بھی ہلاکر رکھ دیا ۔ یہ انقلاب دیگر ممالک میں سماجی تحریکوں اور مسلمانوں کی تحریک آزادی کے لئے رول ماڈل بننے کے ساتھ ہی سوشل سائنس کے ماہرین اور عالمی تعلقات عامہ کے تجزیہ نگاروں کی توجہ بھی اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب رہا ۔
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 1995 ميں تہران کی نماز جمعہ کے خطبوں میں ایران کے اسلامی انقلاب کے عدیم المثال اور منفرد ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انقلاب در حقیقت بے نظیر تھا، در حقیقت اس میں اور دیگر انقلابات میں فرق تھا۔ یہ فرق انقلاب کے رونما ہونے کی روش میں قابل مشاہدہ ہے اور عوام کا انقلاب کے لئے اٹھ کھڑے ہونے والے جذبے میں بھی قابل مشاہدہ ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کو چالیس سال کا عرصہ ہو رہا ہے اور اسلامی نظام آہستہ آہستہ اپنی چالیسیویں بہار کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب متعدد پہلوؤں سے ایک خاص اور موثر انقلاب تصور کیا جاتا ہے ۔ دنیا کے ديگر بڑے انقلابات اور اسلامی انقلاب کے درمیان فرق، اس کے ذریعے بڑی طاقتوں کے کردار کو ختم کرنے سے متعلق ہے ۔ گزشتہ سو برسوں میں عالمی طاقتیں، ایران کی پالیسیوں کی ہدایت میں اہم کردار ادا کرتی رہی تھیں ۔ بڑی طاقتیں اپنے درمیان سمجھوتہ کرکے ایران کو تقسیم کرتی رہی ہیں ۔
1907 میں روس اور برطانیہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ، جس کی رو سے ایران کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، ایسا ہی ایک اہم سمجھوتہ تھا۔ 1919 میں ایران اور برطانیہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ بھی اسی طرح کا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت ایران کے تمام اقتصادی اور فوجی امور اور ریلوے انتظامات برطانیہ کی نگرانی میں دے دیا گیا تھا اور اس طرح ایران ایک مغربی طاقت کے زیر اثر آ گیا ۔
ایران میں مغربی طاقتوں کی مداخلت کا عروج، امریکا و برطانیہ کی سازشوں سے 1332 ہجری شمسی میں ہونے والی بغاوت تھی جس کے تحت محمد مصدق کی قانونی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔ اس بغاوت کے بعد امریکا، ایران میں اہم کھلاڑی بن گیا اور اس نے ایران کے تمام امور پر نظر رکھنا شروع کر دیا ۔
حکومت امریکا، شاہ کی بھرپور حمایت کرکے اور کیپیچیولیشن جیسے موضوعات کو ایرانی قوم پر مسلط کرکے ایران کی پالیسی ساز بن گئی اور اپنے مادی مفاد کو ایران کی تیل کی آمدنی سے پورا کرنے لگی... (جاری ہے)