اسلامی انقلاب اور علماء کا کردار
ایران اور دنیا کے دیگر بڑے انقلابات کے وجود میں آنے کے حوالے سے ایک اور فرق انقلاب کی سربراہی اور قیادت سے متعلق ہے۔ اسلامی انقلاب کی قیادت علمائے کرام کے ہاتھوں میں تھی اور ان کے بارے میں نیز ان کی فکری، سماجی، اخلاقی اور سیاسی خصوصیات کے بارے میں اس وقت کے سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کو زیادہ علم نہیں تھا۔
درایں اثنا امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی قیادت، ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی اصل وجہ تھی ۔ اسلامی انقلاب کی سربراہی اور قیادت ایک کرشمائی شخص کے ہاتھوں میں تھی جو مرجع وقت بھی تھا۔ ایران کے عوام ایک ایسے رہنما کے زیر سایہ رہ کر تحریک چلا رہے تھے جس کی شخصیت بہت ہی وسیع تھی یعنی امام خمینی سیاست داں ہونے کے ساتھ ساتھ مذہبی اور اخلاقی شخصیت کے بھی حامل تھے ۔
یاروند ابراہیمیان اس بارے میں لکھتے ہیں کہ دو باتیں آیت اللہ خمینی کے فیصلہ کن کردار اور وسیع محبوبیت کو واضح کر سکتی ہے ۔
پہلی بات ان کی شخصیت خاص طور پر ان کی سادہ اور معمولی زندگی نیز شیطان جیسے ظالم سے معاہدہ نہ کرنے کی خصوصیت ہے۔ ایک ایسے ملک میں جس کے زیادہ تر سیاست داں آرام اور ٹھاٹ باٹ بھری زندگی بسر کر رہے تھے، آیت اللہ خمینی بہت ہی سادہ لوح زندگی بسر کر رہے تھے اور عام افراد کی طرح ان کی زندگی سادہ تھی ۔
ایک ایسے معاشرے میں جس کے رہنما، ہزاروں چہرے والے، جوڑ توڑ کرنے والے، اپنے خاندان پر توجہ دینے والے اور کبھی نہ صراط مستقیم پر آنے والے تھے، آیت اللہ خمینی نے بڑی سختی سے ان کے ساتھ کسی بھی طرح کی رعایت اور سودے بازی سے انکار کر دیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے بچے کوئی ایسا کام کریں جس کی سزا موت ہو تو وہ انہیں بھی سزائے موت دیں گے ۔ وہ مادی طاقت حاصل کرنے کے درپے نہیں رہے بلکہ اللہ کے خاص بندوں کی طرح معنوی طاقت کے لئے کوشاں رہتے تھے۔
یاروند ابراہیمیان کہتے ہیں کہ آیت اللہ خمینی کے اعلی مقام کو واضح کرنے والی دوسری بات ان کی کرشمائی شخصیت خاص طور پر ایک بڑے سیاسی اور سماجی طبقے کی قیادت میں پوشیدہ ہے۔ وہ حکومت وقت کی تنقیدوں میں ایسے موضوعات پر انگلی اٹھاتے تھے تو سبھی طبقوں اور پارٹیوں کی ناراضگی کا سبب ہوتے تھے ۔ جیسے مغرب کو دیا جانے والا امتیاز، اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات اور براہ راست تعلقات، ہتھیاروں کی خریداری پر ہونے والی فضول خرچی، اعلی حکام کے درمیان وسیع پیمانے پر پھیلی بد عنوانی، زراعت کے شعبے میں پھیلی گراوٹ، امیروں اور غریبوں کے درمیان بڑھتا فاصلہ وغیرہ ۔
اس طرح آیت اللہ خمیینی نے عام لوگوں کی ناراضگی اور پریشانی کے خلاف پوری طاقت سے آواز اٹھا کر متعدد اجتماعی گروہوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا۔ ایران اور دنیا کے ديگر بڑے انقلابات کے درمیان ایک دوسرا فرق، اس کی جانب سے دنیا میں پیش کیا گیا نیا حکومتی نظام تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے، دنیا مشرقی اور مغربی بلاکوں میں تقسیم تھی۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ایران، امریکا کی قیادت والے مغربی بلاک کا حصہ تھا لیکن انقلاب آنے کے بعد حالات بدل گئے اور ایران نے اسلامی جمہوری نامی ایک نئے حکومتی نظام کی شناخت کروائی۔ یہ نظام ایک ماڈل میں تبدیل ہو گیا اور 2011 میں عرب ممالک میں جو عوامی تحریکیں رونما ہوئیں ان میں ایران کے اسی حکومتی نظام کو ماڈل بنایا گیا ۔