جنیوا میں دمشق حکومت اور مخالفین کے درمیان امن مذاکرات تعطل کا شکار
شام میں دہشت گردگروہوں کی مسلسل شکست کے ساتھ ہی جنیوا میں دمشق حکومت اور مخالفین کے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے ہیں ۔
بحران شام کے حل سے متعلق جنیوا میں ہونے والے مذاکرات ملتوی ہوگئے ہیں۔ مذاکرات کا یہ التوا سیاسی اور صحافتی حلقوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے کہا ہے کہ شام میں قیام امن سے متعلق جو مذاکرات جنیوا میں شروع ہوئے تھے عارضی طور پر تین ہفتوں کے لئے ملتوی ہوگئے ہیں۔ اسٹیفن دی میستورا نے بدھ کے دن جنیوا میں ہونے والے شام کے امن مذاکرات میں ایک وقفے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ مذاکرات پچیس فروری کو ہوں گے۔
اسٹیفن دی میستورا نے کہا کہ امن مذاکرات ناکام نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کے لئے مزید بین الاقوامی حمایت کی ضرورت ہے۔ شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے شام کے صدر بشار اسد کے مخالفین کے ایک وفد سے جنیوا میں ملاقات کرنے کے بعد نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران کہا کہ میں نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا کہ مذاکرات برائے مذاکرات نہیں ہونے چاہئیں۔ شام کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے در حقیقت اپنے اس موقف کے ذریعے جنیوا مذاکرات کی راہ میں بشار اسد کی حکومت کے مخالفین کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے پر تنقید کی ہے۔
اقوام متحدہ میں شام کے مستقل نمائندے نے کہا ہے کہ دمشق حکومت کے مخالفین، سازش رچانے والی خطے کی بعض حکومتوں خصوصا سعودی عرب، قطر اور ترکی کے دباؤ میں آکر مذاکرات ادھورے چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں اور اقوام متحدہ نے مذاکرات کو پچیس فروری تک ملتوی کر کے مذاکرات سے مخالفین کے نکلنے کی روک تھام کرنے کی کوشش کی ہے۔
شام کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بشار جعفری نے بدھ کے دن نامہ نگاروں سے کہا کہ ہم جانتے تھے کہ ریاض میں موجود شام کی حکومت کا مخالف گروہ مذاکرات سے الگ ہونا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیفن دی مسیتورا کے اعلامیہ کے ذریعے اس گروہ کے مذاکرات سے الگ ہونے کے سلسلے میں سیاسی جواز فراہم کیا گیا ہے۔
سعودی عرب ، قطر اور ترکی نے شام کی حکومت کے مخالفین کو ڈکٹیشن دی جس کی بنا پر انہوں نے ان مذاکرات میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور یہ مذاکرات التوا کا شکار ہو گئے۔ ان مذاکرات سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مخالفین کو اپنے مذاکرات کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اور اس بات کی نشاندہی ہو گئی ہے کہ شام کی حکومت کے مخالفین کا مقصد شام میں دہشت گردوں کی حتمی شکست کی روک تھام کرنا تھا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب شام میں دہشت گردوں کو اس ملک کی فوج اور عوامی رضاکار فورس کے ہاتھوں شدید شکست کا سامنا ہے۔ جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ سنہ دو ہزار سولہ میں شام میں سیاسی اور فوجی میدانوں میں دہشت گردوں کی حتمی شکست کے عمل میں تیزی آگئی ہے۔
اس سلسلے میں شام کے وزیر اطلاعات نے حلب میں شیعہ آبادی والے قصبوں الزہرا اور نبل کا محاصرہ ختم کئے جانے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ عمران الزعبی نے کہا ہے کہ ان دونوں قصبوں کا محاصرہ ختم ہونے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ شامی حکومت اور شام کے گروہوں کے درمیان مذاکرات شام میں ہی ہوتے ہیں کسی دوسرے ملک میں نہیں۔ دوسرے ملک سے عمران الزعبی کی مراد جنیوا میں شام کی حکومت اور مخالفین کے درمیان ہونے والے مذاکرات تھے جو مخالفین کے داخلی اختلافات اور ان کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کئے جانے کی وجہ سے ملتوی ہوگئے۔
شام کی مسلح افواج نے کہا ہے کہ نبل اور الزہرہ قصبوں کا محاصرہ ختم ہونے سے دہشت گردوں پر کاری ضرب لگی ہے اور اس سے ان دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا کی رپورٹ کے مطابق شام کی مسلح افواج نے بدھ کی رات ایک بیان جاری کیا جس میں آیا ہے کہ یہ کامیابی حلب کے مضافات میں فوجی آپریشن کے جاری رہنے اور دہشت گردوں کو کچلنے کا پیش خیمہ ہے۔ شام کی مسلح افواج کے بیان میں مزید آیا ہے کہ حلب اور اس کے شمالی مضافاتی علاقے میں دہشت گردوں کی اہم ترین سپلائی لائن کو کاٹ دیا جائے گا اور دہشت گرد گروہوں کے زوال کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔