کویت کے مذاکراتی عمل پر سعودی خاندان اثر انداز
کویت میں یمن کے متحارب گروہوں کے درمیان مذاکراتی عمل میں سعودی خاندان کے خفیہ طور پر اثر انداز ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کویت میں یمن کے متحارب گروہوں کے درمیان کئی دن سے امن مذاکرات جاری ہیں لیکن مذاکرات کے عمل میں سعودی خاندان کے خفیہ طور پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے ابھی تک ان مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ یمن کی مستعفی حکومت کا وفد قومی اتحاد حکومت اور جنگ بندی کے استحکام پر ہرگز تیار نہیں ہے اور یہی دو موضوعات یمن پر حملے جاری رکھنے اور اثر و نفوذ کے لئے سعودی عرب کا اصل مسئلہ شمار ہوتے ہیں۔
سعودی عرب کے حکام یمن پر حملوں میں بے تحاشا پیسہ خرچ کرنے اور یمن کی سرزمین پر اپنی دسترس حاصل کرنے میں متعدد ناکامیوں کے باوجود امن کے قیام کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ ہر طریقے سے اپنے اہداف و مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ کویت میں یمن کے مذاکراتی وفد نے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ یمن کی تحریک انصاراللہ کے مذاکراتی وفد کے ایک رکن حمید رزق نے کویت میں اعلان کیا کہ سعودی عرب کا وفد جنگ بندی کے استحکام اور اصل مسائل پر توجہ دینے کے بجائے جزوی مسائل کو اٹھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے اسماعیل ولد الشیخ جنگ بندی کے استحکام کی تائید میں بیان جاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سعودی مذاکراتی وفد اس بیان کی مخالفت کر رہا ہے۔ حمید رزق نے کہا کہ جب فریقین کے درمیان براہ راست بات چیت ہوتی ہے تو سعودی عرب یمن کے مختلف علاقوں پر بمباری اور جارحانہ اقدامات بھی جاری رکھتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سعودی عرب بات چیت میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اپنے جارحانہ اقدامات کو یمن کے مذاکراتی وفد پر دباؤ کے حربے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔
یمن میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں دس اپریل سے جنگ بندی کا آغاز ہوا لیکن سعودی عرب یمن کے مختلف علاقوں پر اپنے جارحانہ حملے جاری رکھ کر جنگ بندی کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں یمنی گروہوں کے درمیان کویت میں امن مذاکرات بھی اکیس اپریل سے ایسے حالات میں شروع ہوئے ہیں کہ یمن پر سعودی عرب کے حملے جاری رہنے کی وجہ سے تجزیہ نگاروں کے مطابق ان مذاکرات کے بارے میں کوئی واضح اور ٹھوس بات نہیں کہی جاسکتی ہے۔