Jul ۱۷, ۲۰۱۶ ۱۷:۵۱ Asia/Tehran
  • ترکی میں باغی فوجیوں کے خلاف آپریشن مکمل ہو جانے کا اعلان

ترکی میں جمعے کی شب شروع ہونے والی فوجی بغاوت چند گھنٹے کے بعد ہی ناکام ہو گئی اور ترک سیکورٹی دستوں نے فوجی ہیڈکوارٹر میں باغی فوجیوں کے خلاف جاری آپریشن کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔

این ٹی وی کے مطابق بعض فوجیوں نے حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور چند ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں کے ذریعے پارلیمنٹ، فوجی ہیڈکوارٹر اور وزارت دفاع کی عمارت کو نشانہ بھی بنایا گیا۔ لیکن بغاوت کے تھوڑی ہی دیر کے بعد ترک انٹیلی جینس نے پولیس کے ساتھ مل کر اور عوام کی حمایت سے صورتحال پر قابو پا لیا۔ فوجی بغاوت کے دوران ایک سو اکسٹھ افراد ہلاک اور ایک ہزار چار سو چالیس زخمی ہو گئے جبکہ دو ہزار آٹھ سو انتالیس باغیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

ترک حکام نے فوجی بغاوت میں شرکت کے الزام میں آفیشل کورٹ کے دس اور اپیل کورٹ کے ایک سو چالیس اعلی عہدیداروں کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ دو ہزار سات سو پینتالیس ججوں کو ان کے عہدوں برطرف بھی کر دیا گیا ہے۔

ترکی میں بغاوت اور فوجی باغیوں کے رابطوں کے حوالے سے مختلف طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ بعض ذرائع نے خود ترکی کے صدر کو اس سارے ڈرامے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اس میں بیرونی عوامل کا ہاتھ ملوث ہے۔

معروف ترک صحافی اور مصنف دانیال ابوالفتاح کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل نیز اس وجہ سے ناکام ہو گئی کیونکہ موجودہ حکومت کی تاریخ استعمال ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ صدر رجب طیب اردوغان بدستور معاہدہ شمالی اقیانوس نیٹو کے منصوبے مکمل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

دانیال ابوالفتاح نے المنار ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حقیقی معنوں میں بغاوت ہوئی ہے اور امریکہ کی حمایت بھی اسے حاصل ہے اور واقعی ترکی کے اقتدار اعلی کو نشانہ بنایا گیا ہے تو ہمیں یہ توقع کرنی چاہیے کہ صدر اردوغان آئندہ سخت احتیاطی تدابیر اختیار کریں گے۔

اسی حوالے سے قزاقستان کے اسٹریٹیجک ریسرچ سینٹر کے سربراہ میکسم شفچنکوف نے کہا ہے کہ ترکی میں فوجی بغاوت صدر اردوغان کی پالیسیوں کے بارے میں بڑھتی ہوئی ناراضگی کی علامت ہے۔ فارس نیوز کے مطابق میکسم شف چنکوف نے کہا کہ یہ بغاوت کسی دہشت گردانہ حملے کی مانند ترکی کو مغرب سے مشرق کی طرف منہ موڑنے اور چین و روس کے ساتھ اتحاد سے روکنے کی غرض سے انجام دی گئی ہے۔

ترکی کی صورتحال کے بارے میں مذکورہ نظریات سے قطع نظر بعض ذرائع بیرونی عوامل کی جانب بھی اشارہ کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر صیہونی ذرائع ابلاغ کے مطابق فوجی بغاوت کا ایک کردار یعنی ترک فضائیہ کا سابق سربراہ اسرائیل میں ترکی کا فوجی اتاشی رہ چکا ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ اکین اوز تورک کو ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کا ماسٹر مائنڈ قرار دے رہے ہیں لیکن خود اوز تورک نے اپنی گرفتاری کے بعد فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

ترکی کے وزیر محنت نے تو امریکہ پر ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔ سلیمان سویلو نے کہا ہے کہ نور پارٹی کے سربراہ اور موجودہ حکومت کے سخت گیر مخالف فتح اللہ گولن اس فوجی بغاوت میں ملوث ہیں اور امریکہ بھی ان کی حمایت کر رہا ہے، گولن اور اس کے حامیوں نے بھی اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔

بہرحال ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ اور استنبول میں حالات قابو میں آ جانے کے باوجود حکمران انصاف و ترقی پارٹی نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک بھر کے شہروں کی اہم شاہراہوں اور چوراہوں پربدستور بیٹھے رہیں۔

ٹیگس