مصری جزیروں کی حوالگی کا فیصلہ کالعدم
مصر کی سپریم کورٹ نے بحیرہ احمر کے دو جزیروں کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے معاملے میں حتمی فیصلہ سناتے ہوئے، حکومت کو ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔
مصری سپریم کورٹ کے جاری کردہ فیصلے کے مطابق حکومت ، مذکورہ جزیروں کے سعودی ملکیت ہونے کے بارے میں موثق شواہد اور دستاویزات پیش نہیں کرسکی لہذا دونوں جزیروں پر مصری ملکیت کی توثیق کی جاتی ہے۔
مصر کی اعلی عدالت نے دونوں جزیروں تیران اور صنافیر کی واگزاری کے بارے میں مصر اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔
مصری عدالت کے اس فیصلے سے سعودی عرب کو شدید دھچکا لگا ہے۔
واضح رہے کہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے سن 2016 میں قاہرہ اور ریاض کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ملک کے دو جزیروں تیران اور صنافیر کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جزیروں کی تحویل کی بدلے سعودی عرب نے مصر کی حکومت کو بیس ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم اس معاہدے کے خلاف مصر میں زبردست ہنگامے شروع ہوگئے تھے اورعوامی تنطیمیں معاملے کوعدالت میں لے گئی تھیں۔
حکومت برطانیہ اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان سرحدوں کے تعین سے متعلق 1906 کے معاہدے کے تحت مذکورہ جرائر مصر کی ملکیت ہیں تاہم سعودی عرب بھی اپنی مالکیت کا دعوی کرتا ہے۔
مذکورہ جزائر کی مصر سے سعودی عرب کو منتقلی کا معاہدہ اسرائیلی مفادات کے تحت عمل میں لایا گیا تھا اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے کچھ عرصہ قبل معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ صیہونی حکومت نے جزائر کی سعودی عرب کو واگزری کے لیے گرین سگنل پہلے ہی دے دیا ہے۔
80 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا جزیرہ تیران بحیرہ احمر کو خلیج عقبہ سے جدا کرتا ہے اور اسرائیل کی بحیرہ احمرتک رسائی کا واحد راستہ شمار ہوتا ہے۔ جزیر صنافیر جزیرہ تیران کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔