فوجی چھاؤنی پر حملہ، افغان حکام اور عوام کا اظہار برہمی
افغانستان کے شہر مزار شریف کے قریب فوجی چھاؤنی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے پر افغانستان کے حکام، عوام اور اراکین پارلیمنٹ نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔
ہندوستانی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ طالبان کے اس دہشت گردانہ حملے میں تیرہ ہندوستانی شہری بھی مارے گئے ہیں ۔بعض ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے اس دہشت گردانہ حملے کو داعش سے منسوب کیا ہے۔
ہندوستانی وزارت خارجہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے ، بالواسطہ طور پر پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کی ان پناہ گاہوں کو تباہ کرنے کی ضرورت ہے جو اس ملک سے باہر موجود ہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ مزار شریف میں ہونے والے اس دہشت گردانہ حملے کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اعلان کیا ہے کہ یہ حملہ بغلان اور قندوز میں فوجی کارروائیوں میں طالبان کمانڈروں کی ہلاکتوں کے جواب میں کیا گیا ہے۔
فوجی چھاؤنی پر طالبان کے اس حملے میں ڈیڑھ سو فوجی مارے گئے ہیں جبکہ درجنوں دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
حکومت افغانستان نے فوجی چھاؤنی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے میں مارے جانے والوں کے غم میں تین روز کے عام سوگ کا اعلان کیا ہے۔
افغانستان کے سرکاری اعلان میں کہا گیا ہے کہ ملک کے اندر اور بیرون ملک افغانستان کا قومی پرچم اتوار کے روز سے تین دن کے لئے سرنگوں کردیا گیا ہے۔
رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ مختلف شہروں میں افغان عوام نے بھی مظاہرے کرکے دہشت گردوں سے اپنی نفرت کا اعلان کیا ہے ۔
یاد رہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اعلان کیا کہ حالیہ ہفتوں کے دوران دہشت گرد گروہوں کو افغانستان کے کسی بھی علاقے میں کوئی سکون نہیں مل سکا ہے اور فوجی چھاؤنی پر کیا جانے والا حملہ دہشت گرد گروہوں کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ نے بھی فوجی چھاؤنی پر حملے کو بزدلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام تمام قوانین اور اسلامی و انسانی اقدار کے سراسر منافی ہے۔
افغانستان کے اراکین پارلیمنٹ نے بھی اس حملے کو ہولناک قرار دیتے ہوئے صدر اشرف غنی سے سیکورٹی کے مسائل پر مزید توجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
افغان رکن پارلیمنٹ عبدالودو پیمان نے افغانستان کے وزیر دفاع عبداللہ حبیبی کو نااہل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی پالیسی یہ ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ افغانستان کی حکومت میں یکجہتی پیدا ہو اور وہ نادرست مشورے دیتے ہیں جن کے نتیجے میں صورت حال ایسی بن گئی ہے کہ ملک تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مزار شریف میں فوجی چھاؤنی پر طالبان کا دہشت گردانہ حملہ، ایک الگ نوعیت کا ہے اس لئے اس سے قبل اس گروہ کی جانب سے ہلمند اور قندھار میں اس طرح کے حملے کئے جاتے رہے ہیں۔
طالبان، افغانستان کے مختلف علاقوں میں بدامنی پھیلا کر یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اس ملک کے مختلف شہروں میں حملے کرنے کی توانائی رکھتے ہیں۔