حزب اللہ کی دھمکی کے بعد اسرائیلی خیمے میں خوف و ہراس - مقالہ
اسرائیل کے اندر نتن یاہو کی حکومت پر حزب اللہ سے جنگ کے خطرے کو کم کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیلی حکومت لبنان کے ساتھ تیل اور گيس تنازع کو جلد حل کرے تاکہ جنگ کا خدشہ ختم ہو جائے کیونکہ کوئی بھی ممکنہ جنگ تباہ کن ثابت ہوگی۔
در اصل تحریک حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اپنے حالیہ بیان میں دھمکی دی ہے کہ اگر لبنان کی وزارت دفاع نے اشارہ کر دیا تو حزب اللہ، بحیرہ روم میں اسرائیل کے گیس اور تیل کے کارخانوں پر حملہ کر دے گا۔
اس دھمکی کے بعد اسرائیل میں بے چینی ہے کیونکہ اسرائیلوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس طرح کی کوئی بھی جنگ تباہ کن ہوگی اور لبنان سے بھڑکنے والی یہ آگ، اسرائیل کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔
سید حسن نصر اللہ نے اپنے حالیہ بیان میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اگلی جنگ زمین پر نہیں ہوگئی بلکہ سمندری سرحدوں پر بھی ہوگی کیونکہ لبنان میں تیل اور گيس کے ذخائر کا معاملہ، اس ملک کے عوام کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
اسرائیل کا دعوی ہے کہ بحیرہ روم کی گیس اور آئیل فیلڈ - 9 اس کی سرحد کے اندر ہے لیکن وہ اپنے اس دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر پا رہا ہے کیونکہ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ لبنان اور مقبوضہ فلسطین یعنی اسرائیل کی سمندری سرحد کا ابھی تک تعین ہی نہیں ہوا ہے۔ یہی نہیں،
2000 میں جب اسرائیلی فوج، جنوبی لبنان سے فرار ہوئی تھی تو اقوام متحدہ نے زمینی سرحد پر جو گرین لائن کھینچی تھی اسے بھی لبنان نے قبول نہیں کیا ہے۔ حزب اللہ کا بھی یہی کہنا ہے اور اسی لئے وہ لبنان کے گيس ذخائر کی ہر صورت میں حفاظت پر کاربند ہے۔
اسرائیل کے وزیر تعلیم نفتالی بینٹ نے ابھی حال ہی میں ایک اسرائیلی اسکول میں اپنے خطاب میں کہا کہ کوئی بھی نئی جنگ اتنی تباہ کن ہوگی کہ اس کی مثال نہیں ملے گی۔ 1967 کا زمانہ گزر چکا ہے اور اسرائیل میں اب یہ توانائی نہیں ہے کہ داخلی طور پر کوئی انتظام کئے بغیر کسی پڑوسی عرب ملک سے جنگ کرے۔
اسرائیل کے وزیر جنگ اویگڈور لیبرمن نے بھی تقریبا یہی بیان دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل کو 6 روزہ جنگ کے بعد کسی بھی جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور اب اس کی حکمت عملی دفاعی ہوچکی ہے۔ در ایں اثنا اسرائیلی حکام کے لئے سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ علاقے میں ایران کا اثر و رسوخ روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے اور اپنی اس پریشانی کا واضح طور پر اعلان بھی کر رہے ہیں جس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں میونخ سیکورٹی کانفرنس کے دوران نتن یاہو کا خطاب ہے۔
اسرائیل کے سابق ائیر چیف نے بتایا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران شام پر 100 بار بمباری کی ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ بمباری جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے پاس ڈیڑھ لاکھ میزائیل پہنچنے کے عمل میں رکاوٹ ڈال پائی یا نہیں۔ سام-5 میزائلوں کی پیشرفت کو روک پائی جس نے اسرائیل کے ایف-16طیارے کو سرنگوں کر دیا۔
بحیرہ روم میں گیس کا یہ ذخیرہ، عربی، لبنانی، فلسطینی، شامی اور مصری ہے ویسے ہم اسے اسلامی بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ترکی کا بھی اس پر قبضہ ہے۔ اس ذخیرے کی گیس بہت اچھی قسم کی ہے اس لئے اگر اسرائیل نے اس سے کھلواڑ کیا تو اسے جان لینا چاہئے کہ آج کے عرب ماضی کے عربوں کی طرح نہیں ہیں، اب انہیں امریکا میں بنے اسرائیلی جنگی طیاروں سے بھی خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا، کھیل کا طریقہ بدل چکا ہے، بہت جلد سب دیکھ لیں گے۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان