مسلمانوں کے قتل عام کو افشا کرنے کی اتنی بڑی سزا
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں دینے والے صحافیوں کو سات سال قید کی سزا سنادی گئی۔
میانمار کی ایک عدالت نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے رائٹرز کے دو صحافیوں کو مسلمانوں کے قتل کی تحقیقات کرنے پر 7 سال قید کی سزا سنادی۔ ان پر ملکی رازوں کو افشا کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ 32 سالہ والون اور 28 سالہ کیاوسیواو کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اور ان پر جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا جب کہ پولیس نے انھیں جال میں پھنسایا ہے۔ والون نے کہا کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور وہ انصاف، جمہوریت اور آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں۔
رائٹرز کے چیف ایڈیٹر اسٹیفن ایڈلر نے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے آج کا دن میانمار سمیت دنیا بھر میں آزادی صحافت کے لیے غمناک دن ہے۔ میانمار میں اقوام متحدہ کے نمائندے اوسٹبی نے بھی صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ دونوں صحافی ملک کی شمالی ریاست راخین کے گاؤں اندن میں فوج کے ہاتھوں دس افراد کے قتل کی تحقیقات کر رہے تھے۔ اس دوران پولیس نے انہیں کچھ دستاویزات تھمائیں اور پھر یہ کہہ کر گرفتار کرلیا کہ وہ قومی رازوں کو افشا کررہے تھے۔ ان کے خلاف ثبوت کے طور پر عدالت میں وہی دستاویزات پیش کی گئیں۔
میانمار میں حکومتی سرپرستی میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کیا جارہا ہے۔ وہاں میڈیا پر سخت پابندیاں عائد ہیں جس کی وجہ سے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کی خبریں دبادی جاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ میانمار کے اعلی فوجی افسروں کے خلاف روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور ان پر نسل کشی کا مقدمہ چلنا چاہیے۔