جمال خاشقجی کے جسم کے کتنے ٹکڑے ہوئے.... نئے انکشافات + مقالہ
مخالف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی سازش کئی مہینے پہلے ہی شروع کر دی گئی تھی اور اس کے ہر پہلو پر پہلے سے ہی غور کر لیا گیا تھا۔
یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اس سازش کے بارے میں محمد بن سلمان نے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کوشنر کو بھی کسی حد تک اعتماد میں لے لیا تھا۔
خاشقجی امریکا میں مقیم تھے جہاں ان کی ملاقات سعودی عرب کے سفیر سے ہوئی اور انہیں یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ ترک خاتون سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو امریکا میں نہیں بلکہ ترکی میں سعودی عرب کے سفارتخانے سے رابطہ کریں۔
محمد بن سلمان امریکا کے اندر خاشقجی کا قتل نہیں کروانا چاہتے تھے کیونکہ ان کو خوف تھا کہ ایسا ہونے پر امریکی حکومت اعتراض اور اقدامات کر سکتی ہے۔ بن سلمان نے اپنے منصوبے کو انجام دینے کے لئے ترکی کا انتخاب کیا جو شاہی حکومتوں کے مخالفین کا اڈا بنا ہوا ہے۔
بن سلمان نے خاشقجی کو ترکی میں ہلاک کرنے کے منصوبے میں اس بات پر خاص طور پر توجہ دی تھی کہ قتل سعودی عرب کے سفارتی ادارے کے اندر ہو جو عالمی کنویشنوں کے مطابق متعلقہ ملک کی ملکیت تصور کی جاتی ہے۔ اس طرح کسی کو بھی اس مسئلے کی تحقیقات میں مداخلت کا موقع نہیں ملے گا۔
یہ نہیں سعودی ولیعہد نے یہ ثابت کرنے بندوبست بھی کر لیا تھا کہ خاشقجی قونصل خانے سے باہر چلے گئے تھے۔ سعودی ولی عہد نے 15 افراد پر مشتمل جو ٹیم بھیجی تھی اس میں ایک شخص مصطفی المدنی نام کا تھا جس کی عمر 57 سال تھی اور وہ 59 سالہ خاشقجی سے کافی شباہت رکھتا تھا۔
خاشقجی کے قتل کے بعد المدنی کو خاشقجی کے وہی کپڑے دیئے گئے جو وہ پہن کر قونصل خانے میں گئے تھے۔ المدنی خاشقجی کا کپڑا پہن کر قونصل خانے کے پچھلے دروازے سے باہر اس طرح نکلے کہ ان کا چہرا صاف نظر نہ آئے۔
پچھلے دروازے سے المدنی کے باہر نکلنے کا ویڈیو امریکی ٹی وی چینل سی این این کو مل گیا اور چینل کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو اسے ترکی کے ایک سینئر عہدیدار سے حاصل ہوا ہے۔
المدنی قونصل خانے کے سامنے والے گیٹ سے اندر گیا اور اس کے چار گھنٹے بعد خاشقجی کا کپڑا پہن کر پچھلے دروازے سے باہر نکلا اور استنبول کے سلطان احمد مسجد نامی علاقے کی جانب چلا گیا۔
اس طرح سعودی ولیعہد یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ خاشقجی کے لا پتہ ہونے میں ان کا کوئی ہاتھ ہنیں ہے کیونکہ وہ قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ گھنٹے بعد پچھلے دروازے سے باہر نکل گئے۔ تاہم سعودی ولیعہد کی یہ ساری تیاریاں رکھی رہ گئیں اور سعودی حکومت کو مجبور ہوکر یہ اعتراف کرنا پڑا کہ خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر قتل کیا گيا۔
در ایں اثنا ترک میڈیا میں اس ملک کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈولپمنٹ پارٹی کے ترجمان عمر جیلیک کا بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ خاشقجی کے قتل کی سازش بڑی درندگی کے ساتھ تیار کی گئي اور اس پورے عمل کو چھپانے کے لئے بہت زیادہ کوششیں کی گئيں۔ ترک ذرائع ابلاغ نے یہ بھی رپورٹ دی ہے کہ خاشقجی کے قتل ہو جانے بعد مرکزی مجرم ماہر عبد العزیز المطرب نے سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان کے دفتر کے چیف آف اسٹاف بدر العساکر سے چار بار رابطہ کیا۔
میڈیا نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ خاشقجی کے قتل کے عمل میں الزامات کا پھندا اب محمد بن سلمان کی گردن کے قریب پہنچ چکا ہے۔
میڈیا نے اس حادثے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ خاشقجی کو بیہوشی کا انجکشن لگایا گیا، ان کا گلا گھونٹا گیا اور ان کے جسم کے 15 ٹکڑے کئے گئے۔ جس وقت یہ ساری درندگی ہو رہی تھی اس وقت کمرے میں میوزک چل رہا تھا۔