خاشقجی قتل کیس نے سعودی حکومت کی حقیقت واضح کر دی
مخالف صحافی جمال خاشقجی قتل کیس میں سعودی ولی عہد بن سلمان کو سزا ملے یا نہ ملے لیکن اس واقعے نے تبدیلیوں کو دبانے والے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔
روزنامہ العربی الجدید کے ایڈیٹر اور مصنف بشیر البکر نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے بعد ایک بات پوری طرح واضح ہو گئی ہے کہ سعودی عرب کی صورت حال ماضی کی طرح نہیں رہی۔
اگرچہ اس قتل کے نتائج یکے بعد دیگرے سامنے آرہے ہیں لیکن اس واقعے کے نتیجے میں آل سعود کی خاندانی حکومت کے پیکر پر کاری ضرب لگی ہے۔
خاشقجی قتل کیس کے بعد سعودی حکومت کی یہ حقیقت پوری کھل کر سامنے آگئی ہے کہ یہ ایک ایسی حکومت ہے کہ جس کا سیاسی، اقتصادی اور عدالتی ڈھانچہ آج بھی قرون وسطی کی اساس پر استوار ہے۔
قتل کے اس واقعے نے ایک بات اور بھی واضح کر دی ہے کہ سعودی حکومت کی اصل باگ ڈور ولی عہد کے ہاتھ میں ہے، یہی وجہ ہے کہ خاشقجی قتل کیس کے بعد ساری دنیا کی توجہ بن سلمان کے کردار کی جانب مبذول ہو گئی ہے۔
سعودی عرب میں مخالفین کا اغوا اور ان کا لاپتہ ہونا کوئی نئی بات نہیں لیکن شاہ سلمان اور ان کے ولی عہد بن سلمان کے دور حکومت میں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آرہے ہیں۔
خاشقجی قتل کیس کے بعد ذرائع ابلاغ نے شہزادہ بندر بن عبداللہ اور معروف خاتون ایکٹی وسٹ لجین الہذول سمیت متعدد دیگر شہزادوں اور سیاسی کارکنوں کی گمشدگی کے معاملات پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔
ان معاملات کے پیش نظر تفریحی پروگراموں پر عملدرآمد کے ذریعے دنیا اور سعودی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور خود ایک اصلاح پسند شہزادے کے طور پر پیش کر کے ٹوئنٹی تھرٹی وژن منصوبے کے تحت ملک کو ترقی کے راستے پر لے جانے کا ڈھونگ رچانے کی کوشش ناکام ہو گئی ہیں۔
اسی دوران بی بی سی ٹیلی ویژن نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سعودی حکام نے گزشتہ سال کے موسم گرما میں پچاس رکنی ٹیم تشکیل دی تھی جس کا مقصد حکومت مخالفین کو ٹھکانے لگانا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک باخبر سعودی ذریعے نے بی بی سی عربی کو بتایا ہے کہ اب تک اندرون و بیرون ملک مخالفین کو ٹھکانے لگانے کی بہت سی کارروائیاں انجام پا چکی ہیں۔
مذکورہ ذریعے کا کہنا تھا کہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں مخالف صحافی جمال خاشقجی کا قتل ایسا پہلا واقعہ نہیں ہے کہ جس میں ولی عہد بن سلمان کے قریبی ساتھیوں نے حصہ لیا ہے۔