امریکا کی نئی سازش، بن سلمان کو بے گناہ ثابت کرنے کا منصوبہ تیار!!!
مشہور عربی اخبار رای الیوم نے لکھا ہے کہ واشنگٹن، حکومت مخالف سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے کو خاموش کرنے کے بدلے میں فتح اللہ گولن کو انقرہ کے حوالے کرنے کا جائزہ لے رہا ہے ۔
رای الیوم نے اپنے اداریے میں لکھا کہ واشنگٹن علاقے میں اپنے اتحادیوں اور خاص طور پر اپنے اصل مہرے یعنی محمد بن سلمان کو بچانے کی اپنی پالیسی کے تحت ترکی کے حکومت مخالف مبلغ فتح اللہ گولن کو انقرہ کے حوالے کرکے اس سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ وہ خاشقجی کے معاملے کو بند کر دے ۔ اخبار کے مطابق ترکی اور امریکا کے تعلقات اور ان میں آجکل ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنا بہت مشکل ہے کیونکہ خاشقجی قتل کیس کے بارے میں دونوں کے نزدیک ہماہنگی اور ترکی کے رخ کی جانب امریکی حکام کے رجحان کے باوجود ترکی کے جنگی طیاروں نے مشرقی فرات کے علاقے میں امریکی حمایت یافتہ کردوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے ۔ تو اس تضاد کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔
اداریے میں لکھا ہے کہ کاش صرف اتنی کی پیچیدگی ہوتی ۔ گزشتہ جمعے کو امریکا کے این بی سی ٹی وی چینل نے اچانک ہی ایک رپورٹ نشر کرکے سبھی کو حیران کر دیا اور اس رپورٹ نے متعدد سوال پیدا کر دیئے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ واشنگٹن، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کو خوش کرنے اور خاشقجی قتل کیس میں سودے بازی کے لئے فتح اللہ گولن کو ترک حکام کے حوالے کرنے کے بارے میں قانونی چارہ جوئی کا جائزہ لے رہا ہے۔
واضح رہے کہ فتح اللہ گولن اور ان کی پارٹی، ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے اصل ملزم ہیں ۔ اس خبر پر ترکی اور دیگرممالک نے وسیع پیمانے پر رد عمل ظاہر کیا ہے کیونکہ اس سے ترک حکام کی جانب سے امریکی پادری اینڈرو برنسن کی رہائی کی یاد تازہ ہو گئی حالانکہ ترکی نے برنسن کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کا دعوی کیا تھا ۔ کچھ خبروں سے تو یہ بھی اشارہ مل رہا تھا کہ امریکی پادری کو اس لئے گرفتار کیا گیا تھا تاکہ اس کا اور گولن کا لین دین کیا جا سکے ۔
ترکی اب بھی خاشقجی قتل کیس میں عالمی تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس نے اس معاملے میں سعودی عرب کی جانب سے پیش کی جانے والی ہر داستان کو مسترد کر دیا ہے ۔ سعودی عرب صرف پانج لوگوں کو خاشقجی کے قتل کا ذمہ دار مانتا ہے جن میں سب سے اہم سعمدی عرب کے خفیہ شعبے کا نائب سربراہ احمد العسیری ہے ۔ ریاض کا کہنا ہے کہ اس معاملے سے شہزادہ محمد بن سلمان کا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے گزشتہ جمعے کو ایک پریس کانفرنس میں اس بات کی تائید کی تھی ۔
نیویارک ٹائمز نے بھی حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں جمال خاشقجی کے قتل کے وقت کے تین آیڈیو فائلز کے حوالے سے اس معاملے میں کچھ نئی باتوں کا انکشاف کیا ۔
اخبار کے ذرائع کے مطابق استنبول میں سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کے قتل کے فورا بعد ان کا قتل کرنے والی ٹیم کے ایک رکن نے اپنے سیٹیلائٹ فون سے اپنے حکام سے کہا تھا کہ اپنے باس (ممکنہ طور پر محمد بن سلمان) سے کہہ دو کہ آپریشن پورا ہو گیا ۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ آیڈیو فائل، جسے سی آئی اے کی سربراہ جینا ہیسپل بھی سن چکی ہیں، خاشقجی قتل کیس میں محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے بہت کی پختہ ثبوت ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ اس فائل میں محمد بن سلمان کا نام نہیں لیا گیا ہے لیکن امریکا کے خفیہ شعبے کے حکام کا کہنا ہے کہ اس میں "باس" سے مراد محمد بن سلمان سے ہی ہے ۔
سعودی حکام نے استنبول میں اپنے قونصل خانے میں خاشقجی کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے لیکن اس نے اس کا الزام اپنی مرضی سے کام کرنے والے عناصر پر ڈالا ہے ۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ امریکا، مشرق وسطی نے اپنے مہرے محمد بن سلمان کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے کیا اقدام کر سکتا ہے؟