ماہِ مبارک رمضان، ماہ تزکیہ نفس
ماہِ مبارک رمضان تمام برکتوں، رحمتوں اور مغفرتوں کے ساتھ شروع ہونے والا ہے۔
ہر سال دیگر مہینوں کی مانند ماہ رمضان آتا بھی ہے اور چلا بھی جاتا ہے تاہم ماہِ مبارک کی آمد سے ایک مسلمان فردی سطح پر بھی اور معاشرتی سطح پر بھی اپنے تئیں ایک مثبت تبدیلی ضرور محسوس کرتا ہے۔ اس سے ایک قسم کے روحانی کیف و سرور کا ماحول فراہم ہوتا ہے۔ ٹھیک اس طرح جیسے موسمِ خزاں کے چلے جانے اور موسمِ بہار کی آمد پر تمام نباتات و حیوانات، چرند و پرند، لالہ زار و کہسار ایک خاص قسم کے وجد کی کیفیت میں آ جاتے ہیں اور بہارِ رمضان میں ہر طرف روحانی چمن زار کھل اٹھتے ہیں، بندگی و بندہ پروری کے کوہسار و لالہ زار جنت کا سا سماں باندھتے ہیں۔ گلشن اسلام کی بلبلیں کلامِ الٰہی کی چہک سے پوری فضاء کو ہمہ تن گوش بناتی ہیں۔ طائرانِ عبودیت یعنی فرشتے اس معنوی فضاء کو دیکھ کر عالمِ ملکوت کو چھوڑ کر عالمِ ناسوت میں بلاناغہ آ جاتے ہیں اور پھر اس روحانی فضاء میں محوِ پرواز ہو جاتے ہیں۔ عبودیت کی اس بہار کی تاثیر سے ہر مومن کی روح موجزن ہوتی ہے اور شیطان اور شیطان صفت عناصر کا ایسے ماحول میں دم گھٹنے لگتا ہے۔
المختصر ان روح پرور ایام میں ایک بندہ خدا، الٰہی نعمتوں اور برکتوں سے جس قدر فیض یاب ہو سکتا ہے دیگر ایام میں ممکن نہیں۔ ماہ مبارک رمضان باقی مہینوں سے فضیلت کے اعتبار سے افضل و اعلٰی تو ہے مگر دیگر مہینوں اور ایام سے مربوط ضرور ہے اور بہارِ رمضان میں جو فیوض و برکات ایک بندہ مومن حاصل کرے لازم ہے کہ سال کے باقی مہینوں میں اس کی حفاظت کرے اور ان سے مسلسل استفادہ کرے۔
ماہِ مبارکِ رمضان ماہِ تربیت اور تزکیہ نفس ہے ۔ ماہ مبارک رمضان کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ایک روزہ دار سال بھر روزے سے ہو، اور روزہ فقط کھانا پینا ترک کرنے کا نام نہیں ہے کیونکہ چند ایک جزوی پابندیوں کو ہٹتا دیکھ کر کوئی یہ کہے کہ تمام قسم کی پابندیاں اٹھ گئیں تو وہ روزے کی روح سے ناواقف ہے۔
قرآن مجید کی رو سے روزے کا مقصد ایک مسلمان کو تقوٰی کو شعار بنانا ہے۔ تو کیا تقوٰی شعاری کی اہمیت و ضرورت فقط ماہ صیام تک محدود ہے۔۔۔؟ نفس امارہ کے ساتھ مبارزہ کبھی نہیں تھمتا لہٰذا ایک مومن کو ہر لحظہ اور ہر آن تقوٰی کی سپر زیبِ تن رکھنی چاہیئے کیونکہ نفس اور شیطان دو ایسے اندرونی اور بیرونی دشمن ہیں جو انسان کے ساتھ ہر وقت نبرد آزما رہتے ہیں۔