ترکی کے مواقف میں تیزی سے تبدیلی اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کو دھچکا + مقالہ
ترکی کے مواقف کی یہ حالت ہے کہ مبصرین کے لئے انہیں سمجھ پانا اور ان کے بارے میں اندازے لگا پانا سخت ہو گیا ہے اس لئے کہ مواقف میں بڑھتا ابہام اور غیر استحکام نظر آتا ہے ۔
جہاں یہ مصدقہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ شام اور ترکی کے درمیان سیکورٹی حکام کے درمیان رابطہ ہواہے اور بہت ہی حساس مسائل پر دونوں ممالک کے درمیان ہماہنگی کرنے کی بات ہوئی ہے وہیں یہ بھی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ترکی کی حکومت، شام کے اندر بر سر پیکار انتہا پسند گروہ النصرہ فرنٹ کی مدد بھی کر رہی ہے جسے دہشت گرد گروہ قرار دیا جا چکا ہے ۔
در ایں اثنا یہ ہی حقیقت ہے کہ النصرہ فرنٹ اور ديگر انتہا پسند گروہوں کے زیر قبضہ والے علاقوں کو آزاد کرانے کے لئے شامی فوج کے آپریشن میں ترکی کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جا رہی ہے۔
ترک صحافی محمد یوفا نے جو ایڈی لنک اخبار میں کام کرتے ہیں، شام کے صدر بشار اسد سے ترکی کے سیاست دانوں اور صحافیوں کے ایک گروہ کی ملاقات کے بارے میں بتایا جن کا تعلق ترکی کے حزب اختلاف اور کئی اخبارات سے ہے ۔ یہ ملاقات 8 مئی کو دمشق میں ہوئی ۔ ملاقات میں بشار اسد نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ہم ترک حکام سے روسی حکام کے ذریعے سے ہی گفتگو نہیں کر رہےہیں بلکہ سینئر کمانڈرز کی سطح پر بھی گفتگو ہو رہی ہے۔
صحافی کے مطابق صدر اسد نے دو اہم ملاقاتوں کے بارے میں بتایا ۔ یہ ملاقات ترکی کے انٹلیجنس سربراہ حاکان فیدان اور شام کے سینئر سیکورٹی حکام کے درمیان ہوئی ۔ پہلی ملاقات تہران میں اور دوسری ملاقات کسب سرحدی چیک پوسٹ پر ہوئی ۔ صدر اسد نے کہا کہ ترکی کے فوجی کمانڈر شام کے داخلی حالات کو ترکی کے رہنماؤں سے زیادہ بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں ۔
ان اطلاعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ترکی نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ زیرو اختلافات کی حکمت عملی کی جانب لوٹنا شروع کر دیا ہے خاص طور پر شام کے بارے میں اسے یہ حکمت عملی مناسب نظر آ رہی ہے ۔
ان تیز تبدیلیوں کے درمیان ترکی کے سامنے دو راستے بچتے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے وہ دمشق، بغداد اور تہران کی جانب بڑھے اور دوسری جانب ماسکو سے بھی تعاون بڑھائے۔ کیا ہم بہت جلد دیکھیں گے کہ ترکی ان دونوں جانب بڑھ رہا ہے؟
ہم دقیق علاقائی تبدیلیوں اور حکمت عملی کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ ترکی یہی قدم اٹھانے جا رہا ہے کیونکہ بحران شام کے بارے میں اس کی پہلے کی حکمت عملی نے اسے بہت نقصان پہنچایا ہے۔
بشکریہ
رای الیوم