سعودی عرب میں موت کی سزاؤں میں اضافہ
رواں سال کے پہلے چھے ماہ کے دوران سعودی عرب میں سزائے موت دیئے جانے کی تعداد میں دو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔
سعودی ولی عہد بن سلمان نے اپریل دو ہزار اٹھارہ میں ملک میں سر قلم کیے جانے کی سزا میں کمی کا اعلان کیا تھا کہ لیکن ان کا یہ وعدہ زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھا اور عملی طور پر سرقلم کیے جانے کی سزاؤں میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا ہے۔
یورپ میں قائم انسانی حقوق کی سعودی تنظیم کے مطابق رواں سال کے پہلے چھے ماہ کے دوران سعودی عرب میں موت کی سزاؤں میں پچھلے پانچ سال کے مقابلے میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ کے پہلے چھے ماہ کے دوران سعودی عرب میں پچپن افراد کے سرقلم کیے گئے جبکہ دو ہزار انیس کے دوران یہ تعداد بڑھ کر ایک سو بائیس تک پہنچ گئی ہے۔
یہاں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں موت کی زیادہ تر سزائے سیاسی جرائم کی بنیاد پر دی جاتی ہیں جنہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق قوانین کا لبادہ پہنایا جاتا ہے۔ سعودی عرب میں دہشت گردی سے متعلق قوانین کی رو سے سعودی شاہی حکومت اور اس کے ڈھانچے پر ہرقسم کا اعتراض ایسا جرم ہے کہ جس کی سزا موت یا عمر قید کے سوا کچھ نہیں۔
اگرچہ سعودی عرب کی جیلوں میں بند سیاسی قیدیوں میں دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی موجود ہیں لیکن ان میں شیعہ مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ سزائے موت پانے والوں میں بھی ان کی تعداد دوسرے شہریوں سے کہیں زیادہ ہے۔
تئیس اپریل کو صرف ایک دن میں جن افراد کے سر قلم کیے گئے تھے ان میں سے زیادہ تر کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے شیعہ آبادی والے علاقوں میں حکومت کی جانب سے روا رکھے جانے والے غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔
سعودی عرب میں سزائے موت پانے والوں میں غیرملکیوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے اور پچھلے چھے ماہ کے دوران ستاون غیر ملکیوں کو بھی مختلف جرائم کے تحت موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ موت کی یہ سزائیں عالمی سطح پر تسلیم شدہ عدالتی قوانین اور انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر دی گئی ہیں۔
ایک اور اہم نکتہ اس حوالے سے مغربی طاقتوں کا کمزور اور غیر موثر ردعمل ہے۔ سعودی حکومت کے مخالف صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر کھل کر ردعمل دکھانے والی مغربی طاقتوں نے سعودی عرب میں سیاسی بنیادوں پر دی جانے والی موت کی سزاؤں کی مذمت میں بیان جاری کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ہے۔