بن سلمان، سعودی عرب کو لے ڈوبیں گے؟؟؟ (پہلا حصہ)
جس نے بھی سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کا حال ہی میں سی بی ایس چینل سے نشر ہونے والا انٹرویو دیکھا ہوگا اور اس انٹرویو میں بن سلمان کے لہجے اور الفاظ پر غور کیا ہوگا وہ اپنے ذہن میں سعودی عرب اور علاقے میں رونما ہو رہی تبدیلیوں کے بارے میں کچھ خاص تصاویر لے کر اٹھے گا۔
پہلی تصویر تو یہ ہے کہ بن سلمان اس انٹرویو میں ولیعہد بن سلمان نہیں بلکہ ملک کے اصلی فرمانروا کے طور پر بولتے دکھائی دیئے۔ انہوں نے اپنے والد شاہ سلمان کا نام صرف دو چار بار ہی لیا۔ بن سلمان نے کہا کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری وہ قبول کرتے ہیں کیونکہ یہ قتل ان کے دور اقتدار میں ہوا اور وہ ملک کے انتظام کی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں اور ان کی حکومت میں 30 لاکھ ملازم کام کرتے ہیں۔
دوسری تصویر یہ نظر آئے گی کہ بن سلمان اس انٹرویو میں ایران سے معاہدے کی اپنی خواہشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ نکتہ ان کے گزشتہ تقریبا سبھی انٹرویوز سے جدا ہے جس میں وہ ایران پر شدید حملے کی کوشش کرتے نظر آتے تھے۔
تیسری تصویر یہ نظر آتی ہے کہ شہزادہ بن سلمان جنہوں نے یمن پر اس لئے حملہ شروع کر دیا تھا کہ وہ منصور ہادی کو دوبارہ اقتدار میں پہنچانا چاہتے تھے، اس دفعہ جنگ یمن کے پرامن حل کی ہر تجویز پر غور کرنے کے لئے تیارہیں اور سیاسی راہ حل کو فوجی اقدامات پر ترجیح دیتے ہیں۔
سعودی عرب کی پالیسیوں میں اس تبدیلی اور پر امن راہ حل کی جانب رجحان کی سب سے بڑی وجہ امریکا کی جانب سے ملنے والا دھوکہ ہے جس کا احساس اس وقت سعودی عرب کو بڑی شدت سے ہو رہا ہے۔ سعودی عرب کو محسوس ہو رہا ہے کہ امریکا کے ساتھ ہی دیگر مغربی ممالک نے بھی اسے تنہا چھوڑ دیا ہے اور اب اسے ایران اور اس کے طاقتور اتحادیوں کا مقابلہ تنہا ہی کرنا ہے۔
سعودی عرب کو بہت تکلیف ہے کہ اس کی تیل تنصیبات پر تین بار بہت اندر تک حملے ہوئے جس سے تیل کی پیداوار آدھی ہوگئی تاہم مغربی ممالک نے اس کی طرف سے کوئی انتقام لینے کی کوشش نہیں کی ۔
جاری...
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان