افغانستان میں امریکا کا فوجی طیارہ کیسے گرا؟ (مقالہ) پہلا حصہ
مشہور عربی اخبار رای الیوم نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے کہ طالبان گروہ جھوٹ نہيں بول رہا ہے اور افغانستان میں امریکا کے فوجی طیارے کا مار گرایا جانا، امریکی صدر کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔
طالبان گروہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی طیارے کے گرنے کے وقت سے ہی صحیح بات کہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ غزنی میں مار گرائے گئے امریکی فوجی طیارے میں سینئیر فوجی حکام موجود تھے اور یہ امریکی صدر کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہے۔
امریکی عہدیداروں نے پہلے تو اس خبر کو مسترد کر دیا اور پھر طویل عرصے کے لئے خاموشی اختیار کر لی لیکن آخرکار انہيں اس خبر کی تائید کرنی ہی پڑی اور انہوں نے صرف اتنا ہی کہا کہ یہ ایک چھوٹا طیارہ تھا۔ انہوں نے طیارے میں سوار امریکی فوجیوں کی تعداد اور ان کی شناخت کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا۔ بہرحال امریکا کے پیشرفتہ طیارہ مار گرایا جانا، ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے فوجی کمانڈروں کے لئے ایکی جھٹکا ہے۔
طالبان نے دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان کے صوبہ غزنی میں گر کر تباہ ہونے والا طیارہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طیارے میں سوار امریکی انٹیلی جنس کے اعلیٰ افسران اور دیگر تمام ارکان مارے گئے۔
رپورٹ کے مطابق یہ طیارہ ضلع دہ یک کے علاقے سدو خیلو میں گر کر تباہ ہوا تھا۔ طیارے کا ملبہ اور امریکی حکام کی لاشیں کریش سائٹ پر پڑی ہوئی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ تباہ ہونے والا یہ امریکی طیارہ انٹیلی جنس آپریشن پرتھا۔
اس کے علاوہ یہ واقعہ امریکا کے ساتھ مذاکرات میں طالبان کے رخ کے مضبوط ہونے کا بھی سبب بنا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے لئے، امریکا کے تمام فوجیوں کو افغانستان سے نکلنا ہوگا۔
در ايں اثنا فوجی امور کے تجزیہ نگاروں کے درمیان ایک اہم سوال گردش کر رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ طالبان کو وہ پیشرفتہ میزائل کہاں سے ملا جسے اس نے امریکا کے فوجی طیارے کو مار گرایا؟
جاری...
شکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان
* سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے*