افغانستان میں امریکا کا فوجی طیارہ کیسے گرا؟ (مقالہ) دوسرا حصہ
عربی اخبار رای الیوم اپنے مقالے میں لکھتا ہے کہ امریکی فوج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے افغان صوبہ غزنی میں اپنا فوجی طیارہ تباہ ہونے کی تصدیق کی تھی تاہم یہ بھی دعویٰ کیا کہ طیارہ دشمن کی کارروائی کے نتیجے میں سرنگوں ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں اور طیارے کی اصل تباہی کی وجہ جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔
مائیکل دی انڈریا کو مشرق وسطی میں امریکہ کے دہشت گردانہ منصوبوں کو نافذ کرنے والے اہم افراد میں سمجھا جاتا تھا۔ بعض ذرائع کے مطابق سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور حزب اللہ کے سینیئر کمانڈر عماد مغنیہ کو شہید کرنے کا منصوبہ بھی سی آئی اے کے اسی آیت اللہ نے تیار کیا تھا۔
نیویارک ٹائمز نے جون 2017 میں اپنے مقالے میں مائیکل دی آندرا کے بارے میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سی آئی انے انہیں ڈارک پرنس اور آیت اللہ مائک کا لقب دیا تھا۔
کچھ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ذریعے سے چین نے یہ میزائل طالبان کو دیا ہے جبکہ کچھ دیگرکا کہنا ہے کہ یہ ویسا ہی میزائل ہے جس سے ایران نے امریکا کے گلوبل ہاک ڈرون کو سرنگوں کیا تھا۔
بہرحال امریکی وزارت دفاع پوری طرح سے حیران و پریشان ہے اور اس کا کوئی بھی عہدیدار اس بارے میں کوئی بھی اطلاع دینے سے پرہیز کر رہا ہے۔ اس طرح کی رپورٹیں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا ایک سینئر عہدیدار مائیکل دی انڈرا اس حملے میں ہلاک ہوگیا لیکن امریکی حکام اس کی تردید کر رہے ہیں۔
البتہ امریکا کی جانب سے اس واقعے پر خاموشی بہت کجھ کہہ رہی ہے۔ امریکا اپنے سٹیلائٹس کے ذریعے ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعے کی اطلاع پیش کرتا رہتا ہے جیسا کہ اس نے ایران میں یوکرین کے مسافر بردار طیارے کے گرنے کے بارے میں مسلسل رپورٹیں دی تھیں لیکن اپنے فوجی طیارے کے مارے جانے کے بارے میں وہ پوری طرح خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اور طیارے میں سوار افراد کی تعداد اور ان کے فوجی رینک کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتا رہا ہے۔
بہرحال ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکا کے اس فوجی طیارے کے مار گرائے جانے کے بعد علاقے میں نئی کشیدگی شروع ہونے والی ہے۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان
* سحر عالمی نیٹ ورک کا مقالہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے*