امریکہ کو طالبان سے معاہدے میں جلدی کیوں؟
امریکہ اور افغان طالبان نے جنگ زدہ ملک میں امن قائم رکھنے کے حوالے سے دونوں فریقین کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کی تصدیق کردی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے ایک ٹویٹ میں افغان طالبان سے امن معاہدہ طے پانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کئی دہائیوں کی کشمکش کے بعد پورے افغانستان میں تشدد میں نمایاں کمی لانے کے حوالے سے طالبان سے معاہدہ طے پاگیا ہے۔
دوسری جانب افغان طالبان نے بھی امریکہ سے امن معاہدہ طے پانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے پر 29 فروری کو باقاعدہ دستخط ہونگے اوراس حوالے سے باضابطہ تقریب دوحہ میں منعقد ہوگی ۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یہ تو کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت طالبان امریکہ معاہدہ طے پاجانے کے بعد شروع ہوگی لیکن قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ طالبان امریکہ معاہدے کے حوالے سے فی الوقت یہ بات واضح نہیں کہ یہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے کوئی جامع معاہدہ ہوگا بھی کہ نہیں یا اس کا مقصد صرف امریکی افواج کی محفوظ واپسی کو یقینی بنانا ہوگا۔ تاہم اس حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ کسی ٹھوس ثبوت اور اطمینان بخش جواز کے بغیرافغانستان پر امریکہ کی فوج کشی اور اس کے جواب میں شروع ہونے والی ناقابل شکست مزاحمت نے پورے خطے کو پچھلے دو عشروں کے دوران مسلسل بدامنی کاشکار بنائے رکھا اور امریکہ اب سمجھ گیا کہ جنگ اور فوج کشی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں اور اسی وجہ سے وہ دم دبا کر افغانستان سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہے۔