بائیڈن انتظامیہ اپنے تکراری اور غیر اصولی موقف کو دہرانے پر مُصِر
توہمات کے شکار وائٹ ہاؤس نے ایک بار پھر اپنا تکراری موقف دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران جامع ایٹمی معاہدے کے مکمل عملدرآمد کی جانب واپس آجائے تو امریکہ بھی اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے جمعے کے روز ہونے والی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران امریکی دعوے کو دوہراتے ہوئے کہا کہ اگر ایران ایٹمی معاہدے کی مکمل پابندی کرے تو واشنگٹن بھی ایسا ہی کرنے کے لئے تیار ہے۔
جین ساکی نے جامع ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی سے متعلق امریکی اقدام کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا۔ واشنگٹن نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس معاہدے سے نکلنے کا اقدام کیا تھا، جبکہ ایران نے امریکہ کے ردعمل میں قدم اٹھایا۔
اسلامی جمہوریہ ایران دو ٹوک الفاظ میں اعلان کر چکا ہے کہ واشنگٹن نے معاہدے کے ایک فریق کی حیثیت سے اسکی خلاف ورزی کی ہے اور ایران نے امریکہ کے غیرقانونی اقدام کے جواب میں اپنے وعدوں پر عمل درامد کو محدود کیا ہے، لہذا تہران پابندیوں کے خاتمے کے بعد ہی اگلا قدم اٹھائے گا۔
یاد رہے کہ ایران نے جامع ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے ایک سال بعد تک اپنے تمام وعدوں پر عمل کیا اور یورپی ملکوں کو بھی موقع دیا کہ وہ امریکہ کے معاہدے سے نکلنے کے جو نقصانات ہیں ان کا ازالہ کرنے کے وعدے پر عمل کریں۔
ایران نے اُس وقت یہ کہہ دیا تھا کہ ایٹمی معاہدے میں شامل یورینیئم کی افزودگی پر پابندی، معینہ مقدار سے زیادہ یورینیئم کو ذخیرہ نہ کرنے اور جدید سینٹری فیوج مشینوں پر تحقیق نہ کئے جانے والی کسی بھی شق کی پابندی کو اپنے لئے لازم الاجرا نہيں سمجھتا، اس کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ ایران نے دھاتی یورینیئم کی ساخت کا کام پھر سے شروع کردیا ہے۔
ایران نے جامع ایٹمی معاہدے کے تمام فریقوں پر واضح کر دیا ہے کہ واشنگٹن اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہوجائے تو ایران بھی اپنے وعدوں کی پابندی کرنے کے لئے تیار ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایران کے سنیئر مذاکرات کار اور ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہ پابندیاں اٹھائے بغیر ایٹمی معاہدے میں امریکی شمولیت یا عدم شمولیت ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔