تشویش ناک جائزہ
کیا حضرت علی نے جو خیبر چھینا تھا ، اسے بن سلمان واپس کر رہے ہیں ؟ حرمین شریفین کی ذمہ داری کس کے ساتھ تقسیم کرے گا سعودی عرب ؟
لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں معروف عرب تجزیہ نگار عبد الباری عطوان نے حرمین شریفین کے سلسلے میں سنجیدہ تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
منگل کے روز اسرائیل میں عام انتخابات میں ایک یا دو سیٹیں ہی جو نیتن یاہو جیتيں گے یا ہاریں گے ، انتخابات کا رخ واضح کرنے کے لئے کافی ہوں گی ۔ فی الحال تو نیتن یاہو عربوں سے دوستی کے لئے جادو ٹونے کا استعمال کر رہے ہيں چاہے وہ عرب دنیا میں رہنے والے ہوں یا پھر مقبوضہ فلسطین کے عرب ہوں ۔ یہ سب کچھ جیت اور جیل جانے سے بچنے کے لئے ضروری ہے ۔
نیتن یاہو عربوں کو دھوکہ دینے اور انہيں تقسیم کرنے میں استاد ہیں ، کبھی دھماکہ کرکے اور کبھی لالچ دے کر ، بڑے افسوس کی بات ہے کہ وہ اسی حربے سے کئي بار کامیاب بھی ہو چکے ہيں ۔ مقبوضہ علاقوں کے عربوں کو انہوں نے " اچھے دن " کا وعدہ کرکے دھوکا دیا اور ان میں اختلافات پیدا کر دیئے جبکہ عرب دنیا میں ان کی کوششوں سے ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور سوڈان جیسے ملک " ابراہیم امن منصوبہ " کے جال میں پھنس گئے لیکن اب ان کی نظریں ، سب سے بڑی مچھلی یعنی سعودی عرب پر ہیں ۔
ابراہیم امن منصوبے اور اس کی خوشی میں وائٹ ہاوس کے گارڈن میں جو جشن منایا گیا وہ ، ٹرمپ کو تو بے عزتی کے ساتھ وائٹ ہاوس سے نکلنے سے نہ بچا پایا اب دیکھنا یہ ہے کہ نیتن یاہو کیا کمال کرتے ہیں جبکہ ہر روز ان کے گھر کے باہر ہزاروں لوگ مظاہرے کر رہے ہيں اور انہيں ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہيں ۔
ہم اس ویڈیو کو کبھی نہيں بھول سکتے جس میں ایک اسرائیلی سماجی کارکن ، اندر اور باہر کے عربوں کو ان کی زبان میں مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے کہ " بڑے شرم کی بات ہے ، اگر تم کو شرم کے معنی معلوم ہوں تو ۔ ہم اس بد عنوان کو ہٹانے کے لئے مظاہرے کر رہے ہيں اور تم لوگ اسے بچنے کا راستہ دے رہو ہو ؟ جبکہ وہ تمہيں اتنا زیادہ نقصان پہنچا چکا ہے اور اتنی زیادہ جنگیں مسلط کر چکا ہے ؟ "
اس اسرائيلی خاتون نے جو کچھ کہا ہے ان میں سے اکثر باتيں بالکل صحیح ہيں ۔ افسوس بہت سے عربوں کو شرم کے معنی ہی نہيں معلوم ، وہ اسلامی و عرب غیرت چھوڑ چکے ہيں اور اب وہ نتین یاہو اور غاصب حکومت سے اچھے تعلقات پر فخر کرتے ہیں ، اسرائیل کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے اربوں ڈالر کے فنڈ قائم کرتے ہيں جبکہ یمن ، اردن ، عراق ، لبنان اور مراکش میں ہمارے عرب بھائي بھوک سے مر رہے ہيں ، دن بھر میں ایک ہی وقت کھانے کو ملتا ہے ، ان کے پاس کرونا ویکسین کے بھی پیسے نہيں ہیں جس کی وجہ سے یہ بیماری وہاں تباہی پھیلا رہی ہے ۔
انتخابات میں ہار سے بری طرح گھبرائے نیتن یاہو اس وقت جیت کے لئے دو کارڈس استعمال کر رہے ہيں :
ایک تو یہ کہ وہ اسرائیلی ووٹروں سے یہ وعدہ کر رہے ہيں کہ اگر وہ جیت گئے اور پھر سے وزیر اعظم بن گئے تو تل ابیب اور مکہ کے درمیان سیدھی پرواز کا آغاز کریں گے اور یہ بھی بتاتے ہيں کہ مزید چار عرب ملکوں سے تعلقات قائم کرنے کا منصوبہ پوری طرح سے تیار ہے ۔
دوسرا کارڈ ، در اصل شدت پسند یہودی دھڑا ہے جس کی قیادت ایتمار بن غفیر نام کے ایک وکیل کے ہاتھ میں ہے اور جو غرب اردن کے الحاق ، وہاں کے تمام عربوں کو اردن بھگانے کی حمایت کرتا ہے ۔
ابراہیم امن منصوبے کی " مارکیٹنگ " آج کل زور پر ہے اور یہودیت و اسلام کے درمیان برادرانہ تعلقات کی بات حجاز و عرب میں کھل کر کی جا رہی ہے ان حالات میں نیتن یاہو جو وعدے کر رہے ہيں ان کا ایک ہی مطلب ہے کہ جب مکہ اور تل ابیت کے درمیان براہ راست پرواز شروع ہو جائے گی تو یہودی در اصل مکہ اور خیبر میں اپنے آباء و اجداد کی سر زمینوں میں جائيں گے ۔ خیبر پر پھر قبضہ کریں گے اور الخلیل میں حرم ابراہیمی کی طرح ، مکہ کے مقدس مقامات پر حق جمائيں گے اور تقسیم کريں گے یا پھر بیت المقدس کی طرح ، ان پر پوری طرح سے قبضہ ہی کر لیں گے ۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے یہ مضمون لکھے جانے تک ، نیتن یاہو کے بیان کی کسی طرح کی تردید شائع نہيں کی گئي اور نہ ہی اسرائيل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے تیار چاروں عرب ملکوں کی جانب سے کوئي بیان سامنے آیا ۔ یہ صحیح ہے کہ نیتن یاہو بے حد جھوٹے اور دھوکے باز شخص ہیں لیکن کچھ عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے اور بیت المقدس میں کچھ ملکوں کے سفارت خانوں کے افتتاح کے ان کے جن بیانات کو ہم جھوٹ سمجھتے تھے افسوس کے ساتھ ، وہ سچ ثابت ہوئے ۔
یہاں پر ہم یہ بھی یاد دلا دیں کہ بیت المقدس کے اسلامی یا عیسائي مقدس مقامات کی نگرانی کی جو ذمہ داری ہاشمی خاندان پر تھی وہ بھی نیتن یاہو کے دور میں ان سے چھینی جا رہی ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ اردن کے ولیعہد حسین بن عبد اللہ کو شب معراج میں بیت المقدس میں نماز ادا کرنے سے بھی روک دیا گیا اور اس کے لئے سیکوریٹی کا بہانہ بنایا گیا ۔ اب ہمیں یہ خوف ہے کہ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے مقدس مقامات کی ذمہ داری بھی " ابراہیم امن معاہدے " کے تحت یہودیوں کے ساتھ تقسیم نہ کر لی جائے ۔